یوم اقبال ہر سال آتا ہے، گزر جاتا ہے اور گزار دیا جاتا ہے مگر اس حال میں کہ انہیں سمجھا گیا اور نہ جانا گیا، کہ اقبال نے خود ہی بتا دیا تھا کہ "میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا، گہرا ہے میرے بحر خیالات کا پانی” حالانکہ حالات کے تناظر میں انکے افکار کو سمجھنا اور راہنمائی لینی چاہیے تھی۔اس وقت بھی ہمارے حالات اس شعر کے مکمل عکاس ہیں ” تم ہو آپس میں غضبناک وہ آپس میں رحیم، تم خطا کار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم. چاہتے سب ہیں کہ ہوں عوج ثریا پہ مقیم، پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم. "مگر قلب سلیم ہم چاہتے ہی نہیں.اہل سیاست ہوں اہل امامت و سیادت ہوں یا اہل صحافت سب غضبناک، وہ بھی اپنوں پر.اقبال کی خوشہ چینی سے جو تفہیم ملی اس کے مطابق ‘اختلاف اگر اخلاقی حدود پار کرے تو انتشار اور انتشار قوم کے زوال کا سبب.’ اس تفسیر کے تحت موجودہ حالات کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں.اے کاش کہ ھم اس شعر کی تفسیر بن جائیں.
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرف نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
ہم کہاں کھڑے ہیں سوچیے اور خود کو بدلنے کی کوشش کیجیے۔اس وقت پاکستان میں کسی نے حق و باطل کی جنگ چھیڑ رکھی ہے تو کتنوں نے عدم استحکام کا اودھم مچا رکھا ہے.خطرہ نہ اسلام کو پے اور نہ پاکستان کو.ہاں اگر کسی کو اس مملکت خداداد کو اسلام کے نام پر بننے، اقبال اور قائد کے اخلاص اور اس کےلئے دی جانے والی قربانیوں پہ شک ہو تو بات الگ.اگر ایسا نہیں تو پھر مذہب اور ملک کے نام پر انتہاپسندی کی دوکانیں بند ہونی چاہیں.اگر یہ کام بطریق احسن ہو جائے تو مہنگائی مسئلہ رہے گی نہ معاشی بدحالی.قوم کا اتحاد ان مسائل سے پہلے بھی نبرد آزما رہا اور اب بھی سرخرو ہو سکتے ہیں بشرطیکہ اتحاد ایمان اور تنظیم کو اپنا لیں اختلاف کو اختلاف رائے تک ہی محدود رکھیں اور اسے انتشار نہ بننے دیں. اسی لیے اقبال نے کہا تھا” اہل دانش عام ہیں کم یاب ہیں اہل نظر، کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا اباغ "اقبال کو صرف اقبال کے کلام سے ہی خراج تحسین پیش کیا جانا مقصود تھا انکے کلام کی تشریح نہیں. اس لیے ابتدائی گفتگو کو توجہ دلا نوٹس ہی سمجھا جائے. ” گرچہ دانا حال دل باکس نگفت، از تو درد خویش نتوانم نہفت.” (اگرچہ سمجھ دار آدمی دل کی بات نہیں بتاتا، مگر میں تجھ سے اپنا درد دل چھپا نہیں سکتا).” تا غلامم در غلامی زادہ ام، ز آستان کعبہ دور افتادہ ام.” (چونکہ میں غلام ہوں اور غلامی میں پیدا ہوا ہوں، اس لیے کعبہ اسلام سے دور ہوں). ایک مقام پر فرماتے ہیں” مرا زپرد گیان جہاں خبردادند، ولے زباں نگشایم کہ چرخ کج باز است.” (مجھے کائنات کے پوشیدہ رازوں کی خبر دی گئ، لیکن میں زباں نہیں کھولتا، مطلب کہ اگر میں زبان کھول دوں اور اسرار بیان کر دوں تو مرا حشر بھی منصور جیسا ہو). اس شعر کے بعد اگر اقبال کے کلام کو آفاقی اور الہامی کہوں تو فتوی تو نہیں بنتا. ” می کنند ہند غلاماں سخت تر، حریت می خواند او را بے بصر.” (دور حاضر کی سیاست محکوموں کی زنجیروں کو اور مضبوط بناتا ہے، کم نظر اسے غلاموں کی آزادی سمجھتا ہے). ” حریت خواہی بہ پیچاکش میفت، تشنہ میر و ہرنم تاکش میفت.” (اگر تو آزادی چاہتا ہے تو ایسی سیاست کے قریب نہ آ، پیاسا مر جا لیکن اس انگور کے رس کا طالب نہ ہو). یہی سب ہماری سیاست ہے. یہ تو بھلا ہو محب اقبال محترم محمد شعیب کا کہ جن کی مہربانی سے علامہ کے فارسی کلام کی راہنمائی اور اس کا فہم میسر ہے وگرنہ معرفت، عشق، درد اور سوز کے سمندر (فارسی کلام) سے گہر چننا حسرت ہی رہ جاتا. ادب رسالت مآب میں ڈوبا یہ شعر پڑھا تو روح کانپ اٹھی. .” چوں بنام مصطفی خوانم درود، از خجالت آب می گردد وجود ” (جب میں آقا پر درود پڑھتا ہوں تو میرا وجود شرم سے پانی پانی ہوتا ہے)” تا نداری از محمد رنگ و بو، از درود خود میالا نام او.” (کہ جب تک آقا کے اخلاق کا رنگ اختیار نہیں کرتا، اپنے درود سے ان کے نام کو آلودہ نہ کر).میری دانست میں اقبال کے کلام کو پرائمری سطح سے ہی نصاب کا حصہ بننا چاہیے اور اگر صاحبان اقتدار اقبال کے افکار کی ترویج اور نوجوان نسل کو فکری و نظریاتی انتشار سے بچانا چاہتے ہیں تو ہر طالب علم کو طالب اقبال بنانا ہو گا. ” میں بندہ ناداں ہوں مگر شکر ہے تیرا، رکھتا ہوں نہاں خانہ لاہوت سے پیوند. اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو، لاہور سے تا خاک بخارا و سمر قند. "اس ولولہ کو تازہ کرنا از بس ضروری ہے وگرنہ اس سے آگے جو انہوں نے کہا اس پر ہم خود مہر تصدیق ثبت کر دیں گے ۔” لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے، جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضامند.”اقبال شناسی امت کی عظمت رفتہ کےلئے ضروری، انکے کلام کی چیدہ قطعات پیش کر کے بےکسی اور مایوسی میں گھری عوام کے جذبات میں طلاطم مقصود تھا بد قسمتی کہ ہم اقبال کو پڑھے، سمجھے اور جانے بغیر انکی عظمت کے گن ہی گاتے رہے۔مرحوم غلام رسول قریشی نے درست ہی کہا.
اقبال کے منصب کا شناسا نہیں کوئی
اقبال ہے کیا اس کو سمجھتا نہیں کوئی.
سب شاعرِ مشرق تو انہیں کرتے ہیں تسلیم
مشرق کا مداوا انہیں کہتا نہیں کوئی
وہ کون تھا جس نے ہمیں بخشی ہے نئی زیست
لاریب جز اقبال مسیحا نہیں کوئی
کس نے دلِ ملت کو دیا عزم مصمم
اقبال سا اب خضرِ توانا نہیں کوئی
وہ اہلِ خبر ، صاحبِ دل، مردِ قلندر !
ہم مرتبہ اِس دور میں اس کا نہیں کوئی