Site icon Daily Pakistan

الوداع سابق صدر سپریم کورٹ بار رشید اے رضوی

تین فروری 2024کو وکلا برادری کی ایک اہم سیاسی شخصیت سابق صدر سپریم کورٹ بار ،سابق جسٹس سندھ ہائی کورٹ ہم سب کے نہایت ہی محترم رشید اے رضوی اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ ابھی تک آپ کے پیاروں کو آپ کی جدائی کا یقین نہیں آ رہا ؟ ان کا شمار دلوں میں رہنے والوں میں ہوتا ہے۔ آپ بیشمار خوبیوں کے مالک ، وکلا برادری کے بے باک لیڈر اور ہمدرد ساتھی تھے۔ ان کے رخصت ہو جانے سے لگتا یہی ہے انسان بے بس بے اور اسکا کسی پہ بھی کوئی اختیار نہیں ۔ کسی کو جانے سے روک نہیں سکتا ۔انسان بھی کیا ہے؟ اپنے سب سے قیمتی اور پیارے رشتے کو اپنے ہی ہاتھوں سے منو مٹی میں دفن کر دیتا ہے۔ آنسو بہاتے ہیں، گزرتے وقت کے ساتھ جدائی کا زخم اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جانے سے بھر جاتا ہے۔ مگر جانے والے کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات ہمیشہ یاد رہ جاتے ہیں ۔ ہم سب دنیا میں مسافر کی طرح ہیں ۔کسی کو نہیں معلوم کون کب کیسے اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گا مگر سبھی جانتے ہیں کہ ہر ایک نے موت کا ذائقہ ضرور چکھنا ہے۔کچھ بیماری کی حالت میں اللہ کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور کچھ اچانک رخصت ہو جاتے ہیں ۔ہر مسافر کا اس دنیا سے جانے کا ایک اپنا ہی انداز ہے۔یہ سچ ہے وہ اگلا موڑ جدائی کا اسے آنا ہے وہ تو آئے گا۔ جسٹس رشید اے رضوی خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ سیاست انکے اندر رچی بسی تھی۔وہ سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے رہے۔انہوں نے سیاست کا آغاز زمانہ طالب علمی کالج سے شروع کیا۔ و ہ اسلامیہ لا کالج کراچی کے صدر رہے۔ انکے نقش قدم پر ان کے دوست رانا رمضان ایڈووکیٹ بھی اسی کالج میں ان سے جونیئر تھے انکے بعد اگلے سال ہی اسلامیہ لا کالج کے آپ بھی صدر منتخب ہوئے ۔رانا صاحب نے بتایا کہ زمانہ طالب علمی سے دوستی کا سفر شروع ہوا تھا وہ سفراب اختتام کو پہنچا۔ پاکستان کی نامور سیاسی شخصیت معراج محمد خان کے ساتھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن اور قومی محاذ آزادی سیاسی جماعت میں اکھٹے کام کیا۔ قومی محاذ آزادی میں بطور سیکٹری جنرل کام کرتے رہے۔ وہ کراچی بار، کراچی ہائی کورٹ بار اور سپریم کورٹ بار کے صدر رہے۔ ساری عمر سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے رہے۔ ان کا شمار پروگریسیو دوستوں میں ہوتا تھا۔ جب ملک کے دو ہزار اٹھارہ میں قومی الیکشن ہو نے جا رہے تھے تو ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو کہا مجھے رہ رہ کر تین مشہور دانشوروں کے قول یاد آ رہے ہیں۔ اِس میں سے پہلا "کارل مارکس "سے منسوب ہے کہ: کچھ سالوں بعد "مظلوموں”کو یہ فیصلہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ ظالموں” کا کون سا "طبقہ” اب ان کا نمائندہ ٹھہرے گا اور پانچ سال ان کا استحصال کرے گا۔ دوسرا "مارک ٹوین” سے منسوب ہے اگر ووٹنگ سے واقعی کوئی فرق پڑتا تو وہ ہمیں کبھی ووٹ نہ ڈالنے دیتے۔تیسرا "رالف نیڈر”کہتا ہےجب آپ دو برائیوں میں سے کم تر برائی کا انتخاب کرتے ہیں تو بھی آپ برائی ہی چن رہے ہوتے ہیں. اس آٹھ فروری کے الیکشن کے موقع پر وہ بہت یاد آئے۔ رشید اے رضوی کی کن کن باتوں کا ذکر کروں۔ سپریم کورٹ بار الیکشن میں حامد خان گروپ نے اسلام آباد بار کے پینل کا اعلان کرنا تھا لہٰذا ایک فنکشن کا اہتمام اسلام آباد کلب میں کیا گیا۔ مجھے اس روز اسٹیج سیکٹری کے فرائض ادا کرنے کو کہا گیا۔رات کے نو بج چکے تھے ۔ وہاں پاکستان بھر کے لیڈنگ وکلا موجود تھے۔ سوچ لیا تھا کہ وقت کی کمی کے باعثِ ممکن نہیں کہ سب کو بات کرنے کا موقع فراہم کروں۔ لہٰذا اسٹیج سنبھالتی ہی بتا دیا کہ تلاوت ونعت شریف کے بعد حامد خان صاحب اپنے وکلا پینل کا اعلان کریں گے۔ عابد زبیری امیدوار برائے صدر مختصر خطاب کریں گے۔آخر میں دعا ہو گی ۔اس دوران میری نظر کراچی سے اس پروگرام میں خصوصی شرکت کیلئے رشید اے رضوی پر ٹھہر گئی۔ فوری حامد صاحب سے رابطہ کیا اور کہا اگر اجازت ہوتو ان کو دعوت خطاب دی جائے ۔ جواب ملا ضرور!! سب نے کھڑے ہو کر تالیوں کی گونج میں انہیں خوش آمدید کہا اور انہوں نے ایک جامع اور یادگار تقریر کی گویا اس فنکشن کے دولہا اس روز وہ ہی تھے۔ ہمارے پینل کو اللہ نے کامیابی دی اور عابد زبیری صدر سپریم کورٹ بار منتخب ہوے۔ یادش بخیر جب رشید اے رضوی سپریم کورٹ بار کے صدر تھے تو اس وقت بارکے باتھ روم کی صفائی پر ایک نوجوان مسلم لڑکا مامور تھا۔ مجھ سے زیادہ میرے بڑے بھائی خالد عباس خان اس وقت رشید اے رضوی کے زیادہ قریب تھے۔ہم بھائیوں نے ان کی صدارت کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ صدر منتخب ہونے کے بعد جب ان کی توجہ ہم نے بار کے اس نوجوان کی جانب مبذول کرائی اور وہاں خوشگوار تبدیلی کا خواہش کا اظہار کیا۔جس کے بعد صدر بار رشید اے رضوی نے ہماری خواہش پوری کی ۔ جب بھی ملتے مسکراتے ہوئے ملتے۔ اسلام آباد آنے پر رابطہ کرتے۔ بلا لیتے۔چائے پلاتے گپ شپ کرتے۔ انکے اندر کا انسان باہر کے انسان سے کئی بڑا تھا۔ آپ کی وفات کا تین فروری کو سن کر بہت افسوس ہوا۔ ہم سب دنیا میں مسافر ہیں کسی کو نہیں معلوم کب کیسے اگلے سفر پر روانہ ہو جائے گا۔جس طرح انسانی اشکال ایک دوسرے سے مختلف ہیں ایسے ہی ان کے جانے کا طریقہ بھی مختلف ہے۔ یہ کسی نے سچ کہا ہے وہ اگلا موڑ جدائی کا اسے آنا ہے وہ تو آئے گا۔ محروم رشید اے رضوی خوبصورت ہی نہیں بہت ہی خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔انکے ساتھی دوست رانا رمضان ایڈووکیٹ اور آپ کو چاہنے والے ڈاکٹر شاہد مہر ایڈووکیٹ نیویارک کو جب اس خبر سے آگاہ کیا تو شدید صدمے سے دوچار ہوئے کہا رشید اے رضوی کی خدمات کو ھمیشہ یاد رکھا جائیگا۔بعد میں اس حوالے سے پاک امریکن وکلا برائے حقوق کے ٹیلفونک تعزیاتی اجلاس منعقد کیا جس میں رشید اے رضوی کی وفات پر غم اور دکھ کا اظہار کرتے ھوئے تنظیم کے سربراہ قانونی ماھر رمضان رانا ، جنرل سیکرٹری لیگل سکالر ڈاکٹر شاھد مہر ، نائب صدر پروفیسر ایاز صدیقی ، نائب صدر گل زمیں خان اور دوسرے وکلا نے اس موقع پر کہا کہ مرحوم نے قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے لئیے ساری زندگی صرف کی ھے جس کو پاکستان کے بے بس اور بے کس عوام اور وکلا برادری ہمیشہ یاد رکھے گی۔ اسی طرح کے خیالات کا اظہار انکے جونیر وکیل افضل جامی جس کا تعلق گوادر بلوچستان سے ہے۔افضل جامی نے بتایا کہ رشید بھائی، اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں مگر بھولتے نہیں ۔آپ کو اللہ جنت الفردس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ کہا مجھے 1981 کا وہ دن آج بھی یاد ہے جب میں ضیا اعوان ایڈووکیٹ کے ساتھ صبح کو ان کا جونئر بننے ان کے دفتر مورس والہ بلڈنگ میں آیا تھا۔ انہوں نے بڑے پیار سے ٹائی اور کوٹ پہنا کر کہا تھا کہ اس کالے کوٹ کی عزت رکھو گے تو یہ تمہیں بہت عزت دے گا۔ اللہ آپ کو آپ کی بے پناہ خدمات کے صلہ میں اجر عظیم عطا فرمائے آمین۔ رشید اے رضوی کے رخصت ہو جانے سے وکلا کی ہر ایک آنکھ نم ہے۔ آپ کے رخصت ہو جانے سے جوخلا پیدا ہوا ہے اسے پر کرنا بہت مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی دکھائی دیتا ہے۔دعا ہے اللہ ان کی منزلیں آسان کرے،انہیں جنت وفردوس میں جگہ دے اور عزیر اوقارب کو صبر و جمیل عطا فرمائے۔ آمین

Exit mobile version