مبصرین کے مطابق یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستان میں جاری انسدادِ دہشت گردی کی مہم کو سب سے زیادہ نقصان داخلی سیاسی بیانیوں اور مخصوص جماعتوں کے متنازعہ رویے سے پہنچ رہا ہے۔غیر جانبدار حلقوں نے اسی تناظر میں کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے جو موقف بارہا سامنے آیا، اس نے نہ صرف دہشت گردوں کو حوصلہ فراہم کیا بلکہ ریاستی آپریشنز کو متنازعہ بنانے کی ایک منظم کوشش بھی کی۔واضح رہے کہ یہ امر ریکارڈ پر ہے کہ ماضی میں اس نے ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کو اپنی کامیابی قرار دیا اور اس کو اپنی سیاسی کارکردگی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ۔ اسی تسلسل میں ٹی ٹی پی کے تقریباً چالیس ہزار مسلح افراد کی بحالی کی وکالت بھی کھلے عام کی گئی، جس کے ویڈیو شواہد بھی موجود ہیں۔ جب دہشت گردی اپنے عروج پر تھی، خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت نے دہشت گردوں کیساتھ مفاہمت کی تجاویز پیش کیں،جس نے نہ صرف شہداء کے لواحقین کے زخموں کو کُھرا کیا بلکہ ریاستی بیانیے کو کمزور کرنے میں بھی ایک بڑا کردار ادا کیااور یہ افسوسناک طرزعمل کسی نہ کسی طور تا حال جاری ہے۔کسے معلوم نہیں کہ پی ٹی آئی کا یہ رویہ محض وقتی سیاسی حکمتِ عملی نہیں بلکہ ایک مستقل رجحان کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو بارہا سبوتاژ کرنے کی مثالیں سامنے آتی رہی ہیں، جبکہ مقامی جماعتوں جیسے اے این پی، پی ٹی ایم او ر این ڈی ایم کے ساتھ مل کر ایسے اقدامات کیے گئے جن کا مقصد سیکیورٹی اداروں کی متحرک کارروائیوں کو روکنا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ طرزِ عمل دہشت گردوں کیلئے بالواسطہ سہولت کاری کے مترادف ہے، کیونکہ اس سے اُن عناصر کو موقع ملتا ہے جو ملک میں دہشت گردی اور شورش کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔مزید برآں، پی ٹی آئی نے ہمیشہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور مظلومیت کے کارڈ کو استعمال کرکے جاری آپریشنز کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ اس حکمتِ عملی نے نہ صرف دہشت گردوں کو پروپیگنڈا کا ایندھن فراہم کیا بلکہ عالمی سطح پر یہ تاثر بھی اجاگر کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف اتفاقِ رائے موجود نہیں بلاشبہ یہ تقسیم کا تاثر بیرونی دنیا میں پاکستان کے موقف کو کمزور کرتا ہے اور دشمن قوتوں کو مواقع فراہم کرتا ہے۔ دفاعی ماہرین کے بقول افغانستان کی صورت حال بھی اس تناظر میں نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ جب سے وہاں طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے، دہشت گردی اور سرحدی دراندازی میں افغان شہریوں کی شمولیت میں تیزی آئی ہے۔ ٹی ٹی اے کی سرپرستی اور کابل حکومت کے دوغلے رویے نے ٹی ٹی پی کو مزید فعال کر دیا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کابل انتظامیہ کی خاموش ملی بھگت کے ساتھ بڑی تعداد میں افغان شہری ٹی ٹی پی اور داعش خراسان میں شامل ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں جب پاکستان نے بارہا افغان حکومت کے رویے کو بے نقاب کیا اور اس کے طرزِ عمل میں تبدیلی کے لیے دباؤ ڈالا، پی ٹی آئی کی جانب سے ٹی ٹی پی کو خوش کرنے کے رویے نے یہ تاثر دیا ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے خلاف یکجہتی موجود نہیں، بلکہ رائے منقسم ہے۔ یہی تقسیم دشمن قوتوں کیلئے تقویت کا باعث بن رہی ہے۔ جب ریاست اپنے دفاع کے لیے فیصلہ کن اقدامات اٹھاتی ہے تو اس وقت سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف یک زبان اور یکسو ہو کر کھڑی ہوں، لیکن افسوس کہ پی ٹی آئی نے بارہا اس کے برعکس رویہ اختیار کیا۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ ملک کے عوام اور قومی سلامتی کے اداروں نے دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ ہزاروں جانوںکی قربانی، شہداء کا خون اور سیکیورٹی اداروں کی انتھک محنت سے حاصل ہونے والے نتائج کو متنازعہ سیاسی بیانیے کی نذر کرنا قومی مفاد سے کھلواڑ ہے۔ یہ وقت ہے کہ تمام سیاسی قوتیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور دہشت گردی کے خلاف ریاستی موقف کو تقویت دیں، بجائے اسکے کہ دشمن قوتوں کے پروپیگنڈا کا حصہ بن کر ملک کی سلامتی کو کمزور کریں۔اسی ضمن میں پی ٹی آئی کے حالیہ اور ماضی کے بیانات اور اقدامات اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ اس جماعت نے دانستہ یا نادانستہ طور پر دہشت گردوں کو تقویت پہنچائی ہے۔ اس رویے کو صرف سیاسی چال نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ اس کے اثرات براہ راست ریاستی سلامتی اور عوامی جانوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
انسداد دہشتگردی آپریشنز کو متنازعہ بنانے کی کوششیں

