Site icon Daily Pakistan

انصاف سستا اور جلدی کیوں نہیں

کہا جاتا ہے اس نطام میں رشوت سفارش بد دیانتی سرایت کر چکی ہے۔اسکو ٹھیک کرنے کےلئے میجر سرجری اور ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ کہا جاتا ہے اس سسٹم میں جعلی ڈگریاں کی بھرمار ہے۔ جس کی وجہ سے یہ دو نمبر کام کرتے ہیں پیسے بناتے ہیں۔موت سے ڈرتے ہیں خدا سے ڈرتے نہیں۔ اگرججز ایماندار دلیر خدا خوفی رکھنے والے ہوں تو یہ گوروں کا نظام بھی چل سکتا تھا مگر جنھوں نے اس نظام کو چلانا ہے وہ تو نام کے مسلمان ہیں۔ان کے کرتوت مسلمانوں جیسے ہے ہی نہیں۔ جس سے انصاف کا بیڑا غرق ہو چکا ہے۔ ان ججز نے وزیر اعظم کو سزائے موت قانون اور آئین کے خلاف دی تھی۔پھر چالیس سال بعد، اسے بے گناہ قرار دیتی ہیں مگر جن ججز نے انہیں تو سزائے موت دی تھی ان کو کوئی سزا نہیں ملی ۔ سزا دینے والے ڈبل لا گریجویٹ فارن کی ڈگریاں رکھنے والے تھے ۔ ایسے ہی ججز آج بھی اس نظام پر مسلط ہیں۔ حال ہی میں لاہور آئی کورٹ کے اندر آصف جاوید نامی مشہور نیسلے کمپنی کے ملازم کا کیس نو سال سے ہائی کورٹ کی عدالت میں چل رہا تھا اور سڑ رہا تھا آج بھی اس کیس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا اسے تاریخ دے دی ۔ خود سوزی کرنے والا اس عدالتی سسٹم سے دلبرداشتہ ہو کر جو بیوی بچوں کا واحد سہارا تھا بے روز گار تھا اس نے سرعام تیل ڈال کر خودسوزی کر لی۔اس نے بتا دیا کہ میں تو اپنے جسم کی شمع جلا کر جارہا ہوں شائد میری اس خودسوزی کی روشنی سے عدل کے نظام کی آنکھیں کھل جائیں گی اور یہ ٹھیک ہو جائے گا ۔ اس نے اپنے بے بس وجود کو آگ نہیں لگائی نظام عدل کے وجود کو آگ لگا کر روشن کیا ۔ آصف ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا جو پاکستان کی بڑی کمپنی نیسلے پاکستان میں ملازمت کرتا تھا۔ 9 سال پہلے محنت کشوں کے حقوق کےلئے یونین بنانے کی پاداش میں نیسلے کی انتظامیہ نے اسے ملازمت سے برطرف کردیا تھا ۔ کچھ سال کی جدوجہد کے بعد این آئی آر سی میں آصف اپنا کیس جیت چکا تھا اور کمیشن نے اسے ملازمت پر بحال بھی کردیا تھا۔ لیکن انتظامیہ نے اس کو اس کا حق دینے کے بجائے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی اور بعد میں ہائکورٹ میں رٹ کردی۔ یہ سلسلہ 9 سال تک چلتا رہا اور ہائکورٹ کے جج صاحب مسلسل تاخیری حربے استعمال کرتے رہے۔ ججز کی اس پریکٹس کا سامنا اسلام آباد ہائی کورٹ میں راقم دیکھ چکا ہے۔ جب ایک ممبر ایف ایس ٹی کے خلاف ہراس منٹ کے کیس میں اسے سزا ہوئی، صدر پاکستان نے اس سزا کو برقرار رکھا تو یہ ممبر جو ہائی کورٹ جج صاحب کے جاننے والے تھے ان کے پاس کیس لگا لیا اور جج صاحب کا کیس چلنے نہ دیا جب تک یہ ممبر اپنا عرصہ پورا نہ کر سکا۔ یہ جج صاحب تاریخ پہ تاریخ دیتے رہے ایسا ہی کچھ اس خود کشی کرنے والے آصف کے ساتھ ہوا۔ کیس کے دوران اس عرصے میں آصف کے حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ پھر وقت آیا جب کرائے کے مکان میں کرایہ دینا بھی ممکن نہیں رہا اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ بچوں کے لئے تعلیم تو دور کی بات، دو وقت کی روٹی بھی نہ دے سکا۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ حکمران طبقے کے سامنے اپنے اور اپنے جیسے مزدور ساتھیوں کے حق کےلئے ڈٹ گیا تھا ۔ لیکن وقت ایک محنت کش کی کمزوری ہے، جیسے جیسے وقت گزرتا رہا ہے اس کے وسائل کم ہوتے گئے اور خاندان کی ٹینشن بڑھتی گئی۔ اس مشکل گھڑی میں کوئی ساتھ دیتا رہتا تو یہ ہمت نہ ہارتا۔ آصف سمجھ نہ سکا تھا کہ چیونٹی اور ہاتھی کا کیا مقابلہ ہو سکتا ہے۔نیسلے کی انتظامیہ نے وقت کے ہتھیار کو ہی اس نڈر محنت کش کے خلاف استعمال کیا جس نے بالآخر اس کے حوصلے کو توڑ دیا اور خود سوزی پر مجبور کردیا ۔آصف کو نہیں پتہ تھا کہ ایک ورکر کی حیثیت مشین کے پرزے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب کوئی ورکر آصف کی طرح اپنے حقوق مانگنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو یہ نظام اس کی زات کی نفی کرنے کےلئے اپنی تمام تر طاقت کو بروئے کار لاتے ہوتے اس کی انسانیت کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے ۔اگر معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو آصف کی اتنی تنخواہ نہیں ہوگی جتنا پیسہ انتظامیہ نے اس کیس میں وکیلوں پر لگایا ہوگا ۔ اس موقع پر اپنے مقبول سیاسی لیبر لیڈر معراج محمد خان مرحوم یاد آ گئے۔ جنھوں نے مزدور لیبر یونین کے لے ڈنڈے کھانے قید کاٹی مگر ساری عمر ان کی جنگ لڑتے رہے کہا کرتے تھے کہ عالمی سرمائے کی ہمیشہ دو کوششیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جس ملک میں سرمایہ کاری کریں، وہاں پر لیبر اور ماحولیات کے قوانین بہت کمزور ہوں تاکہ ملک کے وسائل اور اس کے عوام کی محنت کو پوری طرح نچوڑا جاسکے۔اس نظام کو برقرار رکھنے کا ایک پہلو یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں اگر مزدور دوست یا ترقی پسند حکومت برسراقتدار آتی ہے تو عالمی سامراج ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حقوق کے دفاع کےلئے ان حکومتوں کے تختے الٹانے میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ محترم معراج محمد خان جیسی شخصیت لیڈرشپ اب کہاں۔ کہا جاتا ہے آصف جس کمپنی کے ساتھ جنگ کر رہا تھا ک سب سے زیادہ افسوسناک بات اس کی یہ تھی کہ پانی جیسی ایک قدرتی نعمت جو صدیوں سے لوگوں کے لئے مفت دستیاب تھی۔ اسے فروخت کر رہا ہے ۔ کہا جاتا ہے نیسلے کیخلاف پاکستان میں بھی کئی کیس عدالتوں میں پڑے ہوئے ہیں جن میں سب سے بڑا کیس ہمارے ماحولیات اور قدرتی پانی کے وسائل کو تباہ کرنے کا کیس بھی تھا ۔ اخبارات مختلف اداروں کے خلاف مضمون چھاپ دیتے ہیں لیکن ان بڑی کمپنیوں کے خلاف کچھ بھی چھاپنا ممکن نہیں۔ ان حالات میں یہ تعجب کی بات ہرگز نہیں کہ آصف جاوید ایک دن ناامید کیوں ہوگیا۔ بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ نوجوان خانیوال میں بیٹھا اس ملٹی نیشنل کمپنی، جس کے پیچھے مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ موجود تھی، اکیلا کس طرح نو سال تک اپنے حقوق کےلئے جنگ لڑتا رہا ہے۔ وہ باہمت تھا لیکن جس نظام سے وہ لڑرہا تھا وہ بے انتہا مضبوط تھا وہ اس کی طاقت سے یہ بچارا نا بلد تھا جبکہ اس کے ساتھی، یعنی مزدور تحریک، ابھی بہت کمزور تھی۔ جنھوں نے آصف کا ساتھ نہ دیا گیا جس کی وجہ سے اپنا اور فیملی کو تباہ برباد کر گیا وہ کام کرنے کو چلا جو اس کے بس میں نہیں تھا کاش یہ یوں ٹوٹ کر بکھیرتا نہ۔ ہمت رکھتا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ جس ادارے میں یہ یونین، بنانے چلا تھا وہ ایک پاکستانی فورڈ کمپنی ہی نہیں یہ سوئس ملٹی نیشنل کمپنی کا ذیلی ادارہ بھی ہے جو پاکستان میں چھایا ہوا ہے۔ انکے خلاف کیس ہیں مگر انہیں کوئی سزا دینے والا نہیں ۔ اس ملک کی عدالتوں کا کہا جاتا ہے برا حال ہے ۔ پھر یہ سب کچھ جانتے ہوئے آصف نے ٹکر لی اور خود کو فیملی کو تباہ کر لیا ۔ لگتا ہے یہ یہاں کی عدالتی نظام سے بھی ناواقف تھا۔ اگر دس بندے ہی ساتھ لیکر چل رہا ہوتا تو خودسوزی نہ کرتا۔ جن کو اب بھی اس سسٹم سے امید ہے کہ یہ عوامی جدوجہد کے بغیر ٹھیک ہوجائے گا تو وہ نوٹ کرلیں کہ کونسی سیاسی پارٹی ہے جس نے اس ایشو پر تحریک چلانے کی بات کی ہو ؟ واحد ایکشن اس جج نے لیا ہے ۔ کہا جاتا ہے جنہوں نے آگ میں جھلکتے انصاف کے اس غریب کے مرنے کے بعد حکم صادر فرمایا ہے کہ ہائکورٹ کی سکیورٹی بڑھا دی جائے تاکہ کورٹ کے قریب خود سوزی کے ایسے واقعات مزید رونما نہ ہوں۔ یعنی کہہ رہے ہوں کہ ہمیں یہ نطام یوں ہی چلانے دیا جائے۔ آگے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ۔اس کو مزید بہتر انداز میں بیان کرنا میرے لیے نا ممکن ہے۔ آصف اپنے حصے کی شمع اپنے جسم کو جلا کر جا چکا ہے۔ اب اپ بھی تو اپنے حصے کی شمع جلا جائیں۔

Exit mobile version