تفصیلات کے مطابق انٹر بینک مارکیٹ میں جمعہ کے روز ڈالر 228.18 روپے پر بند ہوا تھا تاہم آج پورادن ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاﺅ جاری رہا تاہم کاروبار کے اختتام پر ڈالر کی قیمت میں 1.64 روپے اضافہ ہوا جس کے بعد ڈالر 229.82 روپے کا ہونے کے بعد بند ہو گیا ۔
تفصیلات کے مطابق انٹر بینک مارکیٹ میں کاروباری دورانیے میں بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کے سبب ڈالر ایک موقع پر 2 روپے 33پیسے کے اضافے سے 230 روپے 51پیسے کی سطح پر بھی آگیا تھا لیکن بعد دوپہر ڈیمانڈ گھٹنے سے ڈالر کی قدر 1.64روپے کے اضافے سے 229.82روپے کی سطح پر بند ہوئی۔
اسی طرح اوپن کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قدر 1.50روپے کے مزید اضافے سے 236روپے کی سطح پر بند ہوئی۔
واضح رہے کہ امریکا اور یورپین سینٹرل بینکس اپنے ہاں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے جارحانہ انداز میں شرح سود بڑھا رہے ہیں جس کے منفی اثرات پاکستانی روپے کی قدر پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا نے کہا کہ سیلاب کے نتیجے میں درآمدی بل میں متوقع اضافہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ بنا ہے
انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے رقم موصول ہونے پر سرمایہ کاری کا وعدہ کرنے والے دوست ممالک نے اپنے وعدوں پر اب تک عمل نہیں کیا۔
ظفر پراچا نے کہا کہ وعدوں کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ پاکستان کی سیاسی صورتحال، کرپشن اور رقم کی ادائیگی کے حوالے سے ماضی کا ریکارڈ ہے، ہمارا خیال تھا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے رقم کی ادائیگی کے بعد روپے کی قدر میں 10 سے 20 فیصد تک اضافہ ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
دوسری جانب، پاکستان میں رواں سال سیلاب کی وجہ سے زراعت اور انفرا اسٹرکچرل تباہ کاریوں کے نتیجے میں 20ارب ڈالر سے زائد کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔ سیلاب میں کپاس کی فصل اور لائیو اسٹاک کا خطیر نقصان ہوا جس کی وجہ سے پاکستان کو اپنی ضروریات کے لیے ساڑھے تین سے چار ارب ڈالر کی کپاس درآمد کرنی پڑے گی جبکہ گوشت کی ضروریات کے لیے لائیو اسٹاک درآمد کرنا پڑے گا کیونکہ سیلاب میں پانچ سے سات لاکھ مویشی بھی بہہ گئے ہیں جن کی کمی کو درآمدات کے ذریعے پورا کیا جائے۔
اسی طرح، اگر اکتوبر تک سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پانی کی نکاسی نہ ہوئی تو پھر پاکستان میں گندم کی کاشتکاری کے مسائل درپیش ہوں گے جس کی وجہ سے مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گندم بھی درآمد کرنی پڑے گی لہٰذا مذکورہ اشیائے ضروریہ کی درآمدات کے لیے پاکستان کو اضافی ڈالرز درکار ہیں لیکن پاکستان کے پاس ذرمبادلہ کے موجودہ سرکاری ذخائر صرف ڈیڑھ ماہ کی درآمدات کی استعداد رکھتے ہیں۔
میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر نے کہا کہ روپے پر دباؤ ہونے کی وجہ سے بینکوں نے غیر ضروری درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ کھولنا بند کردیا ہے
انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت برآمد کنندگان کے لیے ادائیگیوں کا انتظام کرے تاکہ جس دن برآمدات کی کھیپ بھیجی جائے اسی دن ڈالر روپے میں تبدیل ہو جائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایسی پالیسی متعارف کروائی جاتی ہے تو حکومت 5 سے 6 ارب ڈالر واپس لاسکتی ہے۔
2 ستمبر سے ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی آئی ہے جبکہ پچھلے ہفتے کے دوران روپیہ 9 روپے 2 پیسے سے کمی کے بعد 228 روپے 18 پیسے پر آگیا تھا۔
مالیاتی اعدادوشمار اور تجزیاتی پورٹل میٹس گلوبل کے مطابق گزشتہ 52 ہفتوں کے دوران روپے کی قدر میں 26 روپے 37 پیسے کمی واقع ہوئی ہے، 28 جولائی کو روپیہ 239 روپے 94 پیسے کی ریکارڈ کم ترین سطح پر گر گیا تھا۔