Site icon Daily Pakistan

ایک بار پھر دہشت گردی

منگل کی صبح کوئٹہ میں فرنٹیئر کور ہیڈ کوارٹر کے قریب خودکش بم دھماکے میں 10افراد شہید اور30سے زائد زخمی ہوگئے۔یہ بات قابلِ تشویش ہے کہ دہشت گردی کے واقعات ایک ایسے صوبے میں ہو رہے ہیں جہاں اعلی سطح کی سکیورٹی موجود ہے۔بلوچستان کے وزیر صحت بخت کاکڑ کے مطابق دہشت گردوں کے قبضے سے خشک خوراک اور دیگر اشیا برآمد کی گئی ہیں،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے فرنٹیئر کورہیڈ کوارٹر میں داخل ہونے کے بعد ایک طویل تصادم کا منصوبہ بنایا تھا۔ان کے مطابق حملہ آور دو گاڑیوں میں پہنچے۔ایک کو بیریئر کے قریب خودکش حملے میں اڑا دیا گیا جبکہ دوسرے نے ایف سی ہیڈ کوارٹر میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن چوکی پر موجود اہلکاروں نے اسے روک دیا۔فائرنگ کے تبادلے میں دو ایف سی اہلکار شہید ہوگئے۔دھماکہ اتنا زور دار تھا کہ قریبی عمارتوں کی کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹ گئے۔صدر آصف علی زرداری نے منگل کے روز کوئٹہ میں ہونے والے خودکش حملے کی شدید مذمت کی ہے،اپنے بیان میں صدر مملکت نے کہا کہ فتنہ الخوارج اور بھارت کے مفادات کی تکمیل کرنے والے عناصر پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔انہوں نے دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے میں سیکورٹی فورسز کے بروقت اور موثر ردعمل کو سراہا۔صدر زرداری نے زخمی فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکاروں کی جلد صحت یابی کے لیے بھی دعا کی اور مادر وطن کے دفاع میں ملکی سیکیورٹی فورسز کے حوصلے اور عزم کو سراہا۔انہوں نے ہندوستان کے حمایت یافتہ شرپسندوں کے مذموم عزائم کے طور پر بیان کیے جانے والے اقدامات کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا اور مزید کہا کہ پاکستان مخالف قوتوں کی بڑھتی ہوئی مایوسی ان کی ناکامی اور ناگزیر زوال کی عکاسی کرتی ہے۔صدر زرداری نے کہا کہ جیسے جیسے عالمی اور علاقائی منظر نامہ پاکستان مخالف ریاستوں اور ان کے پراکسیوں کے خلاف بدل رہا ہے،وہ مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستان،اس کے عوام اور سیکورٹی فورسز انشا اللہ غالب آئیں گی۔وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی کوئٹہ دہشت گرد حملے میں ملوث فتنہ الہند کے دہشت گردوں کو ہلاک کرنے پر سیکیورٹی فورسز کی تعریف کی۔اپنے بیان میں وزیراعظم نے حملے میں زخمی ہونے والے اہلکاروں اور شہریوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی۔انہوں نے کہا کہ معصوم اور بے دفاع شہریوں کی جان و مال کو نقصان پہنچانے والوں کے مذموم عزائم کو کچل دیا جائے گا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والے عناصر کو عبرتناک سزا دی جائے گی،حکومت،سیکیورٹی فورسز اور پوری قوم ملک سے دہشت گردی اور فتنہ الہند کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔وزیراعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کوئٹہ دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کی بروقت اور موثر جوابی کارروائی کو سراہا۔انہوں نے کہا کہ آپریشن میں چار دہشت گردوں کو جہنم میں بھیجا گیا، نے مزید کہا کہ دہشت گرد بزدلانہ کارروائیوں سے قوم کے عزم کو کمزور نہیں کرسکتے۔بگٹی نے کہا کہ عوام اور سیکیورٹی اداروں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔وزیراعلی نے بلوچستان کو پرامن اور محفوظ بنانے کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا۔انہوں نے حملے میں شہید ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار یکجہتی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی۔
پاکستان مسئلہ فلسطین کے اپنے اصولی موقف پر ڈٹ کر کھڑا ہے
پاکستان کا موقف ہمیشہ سے واضح اور دوٹوک رہا ہے کہ فلسطینی عوام کو ان کا حقِ خودارادیت ملنا چاہیے، اور 1967 کی سرحدوں کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست قائم ہو جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ پاکستان نے نہ ماضی میں اسرائیل کو تسلیم کیا، نہ آج کیا ہے اور نہ آئندہ کرے گا جب تک فلسطینی عوام کو ان کا جائز حق نہیں مل جاتا۔صدر ٹرمپ کے اعلان کردہ 20 نکاتی امن معاہدے کی تائید صرف پاکستان نے نہیں کی بلکہ پورے عالمِ اسلام نے اسکی حمایت کی ہے۔ اس تاریخی اقدام کے پیچھے سعودی عرب، مصر، ترکی، قطر، متحدہ عرب امارات، ایران، ملائیشیا، انڈونیشیا اور دیگر مسلم ممالک کی مشترکہ کاوشیں شامل ہیں،پاکستان اس بڑے اسلامی اتحاد کا حصہ بن کر کھڑا ہے۔مزید براں،اس امن منصوبے پر تمام اہم اسٹیک ہولڈرزبھی متفق ہیں۔ حماس کی اکثریت اور فلسطینی قیادت اس معاہدے کی حمایت کرتی ہے، جو اسے فلسطینی عوام کیلئے قابلِ قبول بناتی ہے ۔یہ پہلا اہم سنگِ میل ہے جس نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کر دی ہے۔ فلسطینی ریاست کے قیام کا واضح روڈ میپ اب سامنے آ چکا ہے، جو ان شااللہ فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف ایک پائیدار بنیاد رکھے گا ۔وزیراعظم پاکستان کی جانب سے اس امن معاہدے کی حمایت دراصل پاکستان کے تاریخی موقف کی تائید اور اس کا تسلسل ہے کیونکہ یہ معاہدہ فلسطین کے قیام اور غزہ میں مسلمانوں کے نسل کشی کو روکنے کی عملی بنیاد فراہم کرتا ہے۔کچھ مخصوص سیاسی عناصرکا پروپیگنڈا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے، سراسر جھوٹ، من گھڑت اور قومی یکجہتی کیخلاف سازش ہے۔یہ بیانیہ نہ صرف پاکستان کے اصولی موقف کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش ہے بلکہ فلسطینی عوام کی جدوجہد کو بھی نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔جولوگ ابھی بھی امن معابدے کی مخالفت میں بات کر رہے ہیں، کیا انہوں نے پچاس ہزار سے زائد مسلمانوں کی شہادت اور لاکھوں زخمیوں کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے عملی طور پہ کچھ کیا؟ اگر اب بھی امن نہیں ہوتا تو روزانہ جو 80 سے 100 اموات ہو رہی ہیں اسکو روکنے کی کوئی ٹھوس اور قبل عمل تجویز کسی کے پاس ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی تائید نے مسلم دنیا کو ایک صفحے پر لا کر تاریخی پیش رفت حاصل کی ہے جسکے نتیجے میں مشرقِ وسطی میں پائیدار امن اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی عملی راہ ہموار ہوئی ہے۔پاکستان کا یہ قدم اسرائیل کے حق میں نہیں بلکہ فلسطین کے حق میں ہے۔کسی مفاد پرست سیاسی ٹولے کے جھوٹے پروپیگنڈے کے برعکس، پاکستان نے ایک مرتبہ پھر پوری دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور ہمیشہ کھڑا رہے گا۔
ماحولیاتی تحفظ فنڈنگ کمی
اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیا کو فطرت کے تحفظ کیلئے 300 بلین ڈالر سے 1 ٹریلین ڈالر کے سالانہ فنڈنگ گیپ کا سامنا ہے۔یہ مالیاتی کشمکش نہ صرف ہمارے ماحول کو بلکہ عالمی معیشت کی بنیادوں کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی جی ڈی پی کا نصف سے زیادہ،یا تقریبا 58 ٹریلین ڈالر،اعتدال پسند یا بہت زیادہ فطرت پر منحصر ہے۔فی الحال،ہر سال تحفظ میں ایک معمولی $200 بلین کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے،جو عالمی GDPکے 1% سے بھی کم کی نمائندگی کرتی ہے۔یہ ان سرگرمیوں میں لگائے گئے کھربوں کے بالکل برعکس ہے جو حیاتیاتی تنوع کو فعال طور پر نقصان پہنچاتے ہیں۔اقوام متحدہ کا تجزیہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ آب و ہوا کی کارروائی اور پائیدار ترقی کے درمیان ہم آہنگی آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ ہے،یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اچھی پالیسیاں حکومتی اخراجات میں 40 فیصد زیادہ کارکردگی کا باعث بن سکتی ہیں۔پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ تجریدی اعداد و شمار نہیں ہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن حقیقی دنیا کے نتائج کی عددی نمائندگی ہیں۔عالمی اخراج میں 1 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالنے کے باوجود کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پہلے نمبر پر ہے،پاکستان نہ صرف موسمیاتی موافقت کے ضروری اقدامات کی مالی اعانت فراہم کرنے سے قاصر ہے،بلکہ ترقی یافتہ دنیا نے بھی اسے پست کر دیا ہے،جو کہ تقریبا تمام تاریخی اور جدید دور کی ماحولیاتی تبدیلیوں کی ذمہ داری ہے۔صرف 2022 کے سیلاب نے 30 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچایا،اس کے باوجود عالمی برادری بحالی کی امداد کے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ماہرین نے اب خبردار کیا ہے کہ پاکستان کو اپنے آب و ہوا کے خطرات کو کم کرنے کے لیے سالانہ 40 بلین سے 50 بلین ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے ایک ایسا اعداد و شمار جو پاکستان کو ملنے والی تمام امداد کو کم کر دیتا ہے اور یہ مالی سال 26 کے پورے وفاقی بجٹ کے تقریبا برابر ہے۔کنزرویشن فنانس گیپ کو پورا کرنا معاشی اور اخلاقی دونوں طرح سے ضروری ہے۔

Exit mobile version