Site icon Daily Pakistan

ایک درویش کی صدا

گلی میں ایک فقیر صدا لگا رہا تھا ہے کوئی جو اللہ کے نام پر دے جس نے تمہیں بہت کچھ دیا ہے اسی میں سے مجھے بھی دے اسکی صدا بڑی معنی خیز تھی نہ جانے کسی کے دل کو اس کی بات لگی یا نہیں لیکن میں نے اسے کچھ دیا اور اسکو اس جملے کے بارے میں کریدا جو وہ کچھ مانگنے کےلئے صدا کی صورت میں لگا رہا تھا اس نے مجھے بڑے غور سے دیکھا اور کہا کہ تم نے کبھی اپنے آپ پر غور کیا ہے جمے ہوئے خون سے گوشت کا لوتھڑا اور پھر انسان کا بننا کتنی باریکیاں ہیں اسکی ساخت میں آنکھ ہی کو لے لو اسکی ساخت اور بینائی ساری کائنات انہی دو آنکھوں سے دل اور دماغ میں اتر جاتی ہے کیسے کیسے مناظر ہیں جو آنکھوں والے ہی دیکھتے ہیں اکثریت نہ تو زیادہ اثر لیتی ہے اور نہ ہی کبھی اپنے ہونے پر سوچتی ہے بس چل رہے ہیں سبھی سسٹم ۔ میں اس فقیر کی باتیں سن کر دل میں سوچنے لگا یہ عام بندہ نہیں اسے کچھ مشاہدہ ہوا ہے اسکی باتیں عام فقرا جیسی نہیں یہ بھی کوئی خزانہ چھپائے پھر رہا ہے اسکے مخفی خزانے تک رسائی عام آدمی کے بس کی بات نہیں جسے حقیقت کو جاننے کی خواہش ہوگی اسی بندے سے یہ فقیر کھلے گا۔ میں نے کہا بابا جی میں بہت کچھ سوچتا ہوں لگتا ہے مجھ میں استعداد نہیں رہبری فرمائیں وہ کہنے لگا اللہ نے اپنا راستہ کبھی نا ممکن نہیں بنایا یہ کمال کی بات ہے دنیا میں رہ کر اللہ سے ملنا اسکی قربت کے طلبگار ہونا یہ آسان بات ہے اللہ نے اپنا راستہ آسان بنایا ہے جب آپ اللہ کا راستہ چلنا چاہیں اور محسوس ہو کہ دقت پیدا ہو رہی ہے تو پھر کہیں کوئی غلطی ہے آپ اپنی ہستی میں رہ کرنیکی کرو اپنی استعداد کے مطابق ۔ لامحدود کے سامنے تمہارے عمل کی وقعت کیا ہے لیکن عمل رائیگاں نہیں جاتا سمندر کو آپ کیا پیش کرو گے چار دریا پیش کرو تو وہ بھی تھوڑے ہیں چار دریا ہوں یا پچاس اس کے سامنے سب برابر ہیں تم نے اپنی چیز دنیا کے سامنے پیش نہیں کرنی بلکہ اللہ کو پیش کرنی ہے وہ جانتا ہے اس نے تمہیں کیا دیا ہے بس استعداد کے مطابق عمل کرو وہ قبول کرنےوالی ذات ہے ایک سائل بادشاہ کے پاس گیا بادشاہ نے پوچھا تمہیں کیا چاہیے جو چاہیے بول سائل نے کہا جہاں پناہ مجھے آدھی سلطنت عطا فرما دیں بادشاہ نے کہا یہ تیری اوقات نہیں اس نے کہا جہاں پناہ پھر چند روپے عطا فرما دیں بادشاہ نے کہا یہ میری شان کیخلاف ہے تو بادشاہ کو یہ استعداد نہ ہوئی نہ تو اس نے بادشاہی کا اظہار کیا نہ ہی ضرورت پوری کی آپ نے اللہ کو جو پیش کرنا ہے اسے دل سے پیش کرو معذرت کا سجدہ ہی پیش کرو لیکن دل سے وہ اس بے نیاز ذات کو پسند ہے دراصل استعداد دنیا داری کا نام ہے اور نیت اللہ کا نام ہے اس پاک ذات کے ساتھ دنیا داری نہ کرنا اس سے محبت کرو محبت میں تمہارا سب کچھ اللہ کا ہے نہ مانگے تب بھی سب کچھ اس پاک ذات کا ہے اگر تم اللہ کے سامنے کچھ کرنا چاہتے ہو تو پھر اس پاک ذات کے سامنے معذرت کیسی اللہ سے تم نے کیا چھپانا ہے وہ مخفی اور ظاہر سب جاننے والا ہے بس نیک نیتی اور دل سے عمل کرتے جاو زندہ ہو تب بھی اس کےنام پر مر جاو تب بھی بس اس سفر کے درمیان کہانی مکمل ہو جاتی ہے اللہ کے حبیب نے کہا میں بھی اس ذات کو سجدہ کرتا ہوں تم بھی کرو حضور جسکی نماز پڑھ رہے ہیں اسی کا نام اللہ ہے لہٰذا اللہ کو حضور سے الگ جانو حضور اللہ کے بندے ہیں اللہ ہر ابتدا سے پہلے اور ہر انتہا کے بعد ہے اللہ خالق ہے اور حضور مخلوق تو یہ ہمارا ایمان ہے لیکن حضور ایسی مخلوق ہیں جن پر اللہ اور اسکے فرشتے درود بھیجتے ہیں وہ اللہ کے بہت ہی قریب ہیں وجہہ کائنات آپ نہ ہوتے تو یہ کائنات بھی نہ ہوتی وہ ہمارے جیسی مخلوق سے الگ ہیں زندہ آدمی کا محبوب بھی زندہ ہوتا ہے ہم لوگ مرے ہوئے لوگ ہیں اپنے آپ کو زندہ کہتے ہو لیکن اس حقیقت کے برعکس جیسے اس مالک نے زندہ رہنے کے آداب بتائے ہیں اس طرح رہو تو زندہ ہو پھر محبوب زندہ ہے جس کے ساتھ اللہ نے محبت کی ہو جس پر رحم کیا ہو فیض عطا فرمایا ہو پھر اللہ اسے ضائع نہیں ہونے دیتا تمہیں وہ واقع یاد ہوگا جب سی ڈی اے نے سڑک کشادہ کرنے کےلئے سخی محمود بادشاہ والد گرامی حضور بری امام کے مزار کو شہید کرنا چاہا تو ٹریکٹر کوشش کے باوجود بھی نہ چلا لہٰذا مزار وہیں پر ہے اور سڑک جتنی کشادہ ہونا تھی ہو گئی اللہ والوں کی اللہ خود حفاظت فرماتا ہے ان لوگوں نے اللہ کی یاد کو قائم کیا اللہ نے ان کو قائم کر دیا زندگیاں قائم ہو گئیں یادیں قائم ہو گئیں اور یہ سب کچھ قیامت تک رہے گا اپنے پاک کلام قرآن مجید کو قائم کر دیا اب بھلا کسی کی مجال ہے کہ اسکی زیر زبر کو بھی تبدیل کرے حضور کو ایسا بنا دیا کہ رہتی دنیا تک ان کی شان میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے قیامت کے روز اپنی امت کےلئے بخشش کی سفارش کرنے والے آپ کے نام پر مرنے والے شہید کہلاتے ہیں شہید زندہ ہوتے ہیں تو پھر جس ذات پر شہید ہوا وہ تو پھر ہر لمحہ زندہ ہے سمجھ کی بات ہے یہاں عقل جواب دینے سے قاصر ہے محبت زندہ اور تابندہ ہے خالق لافانی ہے خالق کا محبوب بھی اسی ضمرے میں ہے محبت کرنے والے سرکار کے جلوے کو ترستے ہیں اللہ سے ان کے جلوےکے خواہش مند ہوتے ہیں نصیب والوں کو زیارت ہو جاتی ہے احکامات مل جاتے ہیں محبت نہ کرنے والے حقیقت کے فلسفے میں الجھے رہتے ہیں ایک بزرگ حضرت بہلول تھے دریا کے کنارے مٹی اور ریت کا محل بنا رہے تھے خلیفہ کی بیگم زبیدہ کا گزر ہوا پوچھا بابا جی کیا بنا رہے ہو کہا جنت میں محل بنا رہا ہوں پوچھا بیچو گے کہاں ہاں ۔ پوچھا اسکی قیمت کیا ہے بابا جی بولے دو درہم بیگم نے کہا یہ دو درہم لیں اور محل مجھے دے دیں انہوں نے کہا جا تیرا محل جنت میں بنا دیا ہارون رشید کو رات کو خواب میں جنت میں محل نظر آیا اندر جانے لگا تو روک دیا گیا کہنے لگا یہ میری بیوی کا محل ہے اسے جواب ملا یہ دنیا کے رشتے ہیں یہ محل انہیں بابا جی بنا کر دیا ہے انہوں نے اللہ سے منظور کرایا ہے خلیفہ بہلول بابا کے پاس گیا بابا جی پھر مکان بنا رہے تھے خلیفہ نے پوچھا بیچیں گے کہا ہاں قیمت پوچھی تو کہا دو لاکھ درہم خلیفہ نے پوچھا کل زبیدہ کو تو دو درہم کا دیا تھا تو بابا جی نے فرمایا اس نے بن دیکھے سودا کیا تھا تم دیکھ کے خریدار بنے ہو تو ایمان ہوتا ہی وہی ہے جو بغیر دیکھے ہو عقیدت وہی ہے جو اندھی ہو عقیدت کا جذبہ مستقبل کےلئے ہے اللہ مشاہدہ ہے سرکار کے الفاظ اور بیان ہی اللہ کے ہونے کی دلیل ہیں ہمیں ماننا ہے کیونکہ یہ حضور کا حکم ہے انسان میں یا تو خلوص ہے یا پھر بحث ہے بحث لاحاصل ہی رہتی ہے محبت سرفراز کرتی ہے اللہ کے بندوں سے محبت کرو سرکار تمام جہانوں کےلئے رحمت ہیں ان کے ماننے والے کبھی دوسروں کےلئے زحمت نہیں بنتے قرآن پڑھنے سے دل نرم ہوتا ہے موم ہوتا ہے سخت دل بے ثمر ہے اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچاو ایک ایک لمحے کا حساب ہوگا کندھوں پر دو فرشتے اعمال محفوظ کر رہے ہیں ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا فرعون بنے ہوئے ہیں محبت پیار خلوص نام کی چیزیں زندگی سے کوسوں دور ہیں ذاتی مفاد کا حصول ہر طرح سے جائز ہے ہم اللہ کی مہربانیاں نا فرمانیوں میں بدل رہے ہیں جس نے کافر پیدا کیے اس نے ہمیں مومن بنا کر پیدا کیا وہ ذات ہم پر بہت مہربان ہے اس نے حضور کی امت بنا کر بھیجا یہ شکر کا مقام ہے وہ ذات ہم پر بہت مہربان ہے ہمیں ہی احساس نہیں ہوتا خزاں سے بہاروں کو پھیلانے والا خشک ٹہنیوں کو سرسبز و شاداب کر دینے والا بیج سے خوبصورت رنگ برنگے پھولوں کا ظہور پہاڑ دریا سمندر چرند و پرند سبھی دعوت فکر دے رہے ہیں ہمارے پاس ہی وقت نہیں کہ ہم ان عجائبات پر غور کریں سورہ رحمن پڑھیں دلائل کے انبار ہیں غور کرنے کا مقام ہے وہ پاک ذات تمہاری طلب کے مطابق عطا فرماتی ہے ہمیشہ دینے والا مانگنے والا او دینے والا الگ ذاتیں ہیں دولت اگر غفلت میں دھکیل دے تکبر پیدا کرےتو یہ عذاب کی طرف جانے کا راستہ ہے ثواب اور کامیابی نہیں رہتی بناوٹ سے دور ہو جاو تو زندگی آسان ہو جاتی ہے یاد رکھو جس کو عذاب دینا ہوتا ہے اسکو کافروں میں پیدا فرماتا ہے نہ ماننے والوں میں بھیجتا ہے اسمیں فرعون کی صفات ابھرتی ہیں اور جس پر رحم کرنا ہوتا ہے اسے مسلمان پیدا کرتا ہے امتی پیدا کرتا ہے نیک بندوں کے ساتھ محبت اور تعلق جوڑ دیتا ہے اپنے محبوب کی محبت عطا فرماتا ہے اس کے کرم سے اگر یہ نعمتیں حاصل ہو جائیں تو پھر اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر حضور سے محبت قائم کر کے آخرت میں کامیابی ہوگی انشا اللہ اللہ بے نیاز ہے نیک نیتی سے کی گئی عبادت ضائع نہیں جاتی وہ اسکا اجر عطا فرماتا ہے دعا کرو اللہ ہمیں دنیا اور دین میں کامیاب کرے اس فقیر نما درویش کی باتیں سن کر میں اپنے احتساب میں کھو گیا وہ درویش کہاں چلا گیا کب گیا مجھے کچھ معلوم نہیں ۔

Exit mobile version