ابھی ہم بونیرکے سیلاب کے تباہی کے منظر دیکھ ہی رہے تھے کہ پنجاب کے پانچ دریاؤں کے پانی ہر سو پھیل گئے ۔جس سے کئی دیہات، کئی شہروں، کئی نئی بستیاں پانی میں ڈوب گئیں۔ لگتا یہی ہے خدا ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے ہم سے ناراض ہے۔بنیر میں خدا کی ناراضگی کی وجہ یہ دکھائی دیتی ہے کہ مقامی لوگوں نے پیسوں کی خاطر نیچر سے چھیڑ خانی کی تھی۔ بنیر کاعلاقہ خوبصورت جنگلات اور خوبصورت پہاڑوں کی وجہ سے مشہور تھا اسے دیکھنے کیلئے لوگ دور دور سے آتے تھے۔ جو پانی گزرتا تھا اس کے کناروں پر ہوٹل ریسٹورنٹ بنا رکھے تھے۔ جہاں سیاح پانی میں کرسیاں میز لگا کر کھاتے پیتے تھے۔ مقامی لوگ تو واقف تھے کہ اس موسم میں یک دم پانی آتا ہے جو سب کو بہا کر لے جاتا ہے لیکن سیر و تفریح پر آئے لوگ اس پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا منع کرنے کے باوجود پانی میں بیٹھ کر کھانے پینے کو ترجیح دیتے رہے۔ اس کے علاوہ وہاں کے مقامی لوگوں نے نیچر کوچھیڑنا شروع کر رکھا تھا۔وہاں کے جنگلات کو کاٹتے لکڑی کو فروخت کرنے کا دھندا شروع تھا ایسا ہی سلسلہ پہاڑوں سے پتھروں کو نکال کر بھیجنے کا کام جاری تھا جب کہ یہ پتھر یہ درخت ان پہاڑوں کو گرنے بکھرنے سے بچایا کرتے تھے۔ جب مقامی لوگوں نے نیچر کو بدلا تو پھر قدرت کے سیلاب نے ان پتھروں کو ان کاٹے ہوئے درختوں کو بہا کر مقامی آبادی کو ہی مسمار کر دیا۔ پھر ہم نے ایسا ہی سین پنجاب میں دیکھا۔ ملتان کے آموں کے باغات کو کاٹ کر کے سوسائٹی بنا لی ۔اسی طرح دریا راوی کے کناروں پر سوسائٹی بنا ڈالی۔ سارے ملک میں زرعی زمینوں پر سوسائٹیاں بن چکی ہیں۔جس نے بھی کسی کی زمین پر قبضہ کیا وہ ذلیل و خوار ضرور ہوا۔ ایک سوسائٹی کے مالک کے خلاف مقدمہ چلا یہ مقدمہ سپریم کورٹ تک پہنچا ،سنا کرتے تھے کہ وکیل کو کیا کرنا جج کر لو۔ اس پارٹی نے اس پر عمل کیا جج سے رشتہ داری کر لی۔ اس وقت کے چیف جسٹس نے سوسائٹی کے مالک کے بیٹے کو اپنا داماد بنا لیا۔جب سوسائٹی کے مالک کو مرنے کے بعد اسے دفنانے کے لیے قبرستان لایا گیا تو مظلوم لوگوں نے اس کی باڈی کو قبر میں دفنانے نہ دیا۔ پھر پولیس کے سائے میں چیف جسٹس کی بیٹی کا سسر دفن ہوا۔ لیکن ہم ان حادثات سے سبق نہیں سیکھتے۔ اس وقت ملک میں جتنے ٹی وی چینل چل رہے ہیں سوائے چند ایک کے ان کا دھندا ہی سوسائٹی بنانا ہے۔ یہی وجہ ہے ان سوسائٹی کے خلاف انگلیاں نہیں اٹھاتے خبر نہیں چلاتے۔ کہا جاتا ہے ان کے ساتھ جوڈیشری ملی ہوتی ہے ۔ جیسے دریا راوی کی کہانی کے پیچھے بھی سپریم کورٹ کے اسوقت کے دو ججز تھے۔ موجود سیلاب کی صورتحال میں کہا گیا کہ بھارت نے اپنے دریاؤں کے پانی کو اپنی مرضی سے پاکستان میں چھوڑا جس سے یہاں کے دریا بپھر گئے۔ قابو میں نہ رہے۔اس پانی نے شہروں دیہاتوں کو ڈبونے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن جو پانی بھارت سے آیا ہے اس میں انسانی لاشیں جانور بڑی تعداد میں ہمارے دریاؤں میں دیکھنے کو ملے۔ اس سے لگتا ہے بارشوں سے بھارت میں بھی تباہی ہوئی ہے۔ لاہور میں راوی کے کنارے قائم بستیوں کے آباد کرنے سے لوگ بے گھر ہوئے۔ اس کے ذمہ دار حکمران اور ہماری جوڈیشری کے دو ججز صاحبان ہیں جنھوں نے لاہور کو ڈبونے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ یہ دو ججز وہ ہیںجن کے ایک غلط فیصلے نے لاہور کو سیلاب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اس وقت کے وزیراعظم کے ساتھ مل کر ان دو ججز نے ہاوسنگ سوسائٹی بنانے کے حق میں فیصلے لکھے۔ حکمرانوں نے روڈا بنایا جب کہ روڈا پر جسٹس شاہد کریم کا لینڈ مارک ججمنٹ دیا جسکو معطل کر کے ان دو ججز نے ہاوسنگ سوسائٹی کے ایجنٹ کا کردار ادا کیا۔جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے راوی ریورفرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ روڈا کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ عدالت نے نہ صرف پروجیکٹ کو غیر قانونی قرار دیا تھا بلکہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ترمیمی) آرڈیننس2021کی دفعہ 4 کو بھی آئین سے متصادم اور غیر قانونی قرار دیا تھا۔ مگر دو ججز نے اس فیصلے کو معطل کیا اور نتیجہ اب سب کے سامنے ہے۔ ایک روایت ہے کہ جب چنگیز خان نے نیشاپور کو خون میں نہلا دیا اور شہر کو مٹی میں ملا دیا، تو اسکے بعد وہ اپنی خوفناک فوج کیساتھ ہمدان کی طرف روانہ ہوا۔ ہمدان کے لوگ ڈر کے مارے لرز رہے تھے، ہر چہرے پر خوف، اور ہر دل میں موت کا اندیشہ چھایا ہوا تھا۔ چنگیز خان نے حکم دیا کہ پورے شہر کو ایک وسیع میدان میں جمع کیا جائے۔ میدان میں خاموشی طاری ہو گئی، جیسے وقت رک گیا ہو۔چنگیز خان نے بلند آواز میں کہا "میں نے سنا ہے کہ ہمدان کے لوگ نہایت ہوشیار، عقل مند اور سمجھ دار ہوتے ہیں۔ تمہاری عقل مندی مشہور ہے، کہتے ہیں: ہمہ دانی و ہیچ ندانی یعنی سب کچھ جانتے ہو، مگر پھر بھی کچھ نہیں جانتے۔پھر اس نے اعلان کیا”میں تم سے ایک سوال کروں گا۔ اگر جواب درست ہوا تو تم سب کو امان دی جائے گی۔ لیکن اگر جواب غلط ہوا تو یہ میدان تم سب کی قبریں بن جائے گا۔ تمہاری قسمت کا فیصلہ یہی کروں گا۔میدان میں موت جیسی خاموشی چھا گئی۔ لوگ کانپنے لگے۔
چنگیز خان نے نظریں گھمائیں، پھر گرج کر پوچھا: "کیا میں خدا کی طرف سے آیا ہوں؟ یا اپنی مرضی سے؟” کسی کے پاس ہمت نہ تھی جواب دینے کی۔ علما، دانشور، اور بزرگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ یہ سوال صرف ایک دلیل نہیں تھا، بلکہ پورے شہر کی زندگی اور موت کا سوال تھا۔ ہر چہرہ پریشان، ہر آنکھ سوالی بنی ہوئی تھی۔ اور تب ہجوم سے ایک سادہ سا چرواہا آگے بڑھا۔ نہ وہ عالم تھا، نہ دانشور۔ مگر اسکی آنکھوں میں بصیرت تھی، دل میں سچائی۔ چنگیز خان نے اسے دیکھا اور کہا "اگر میں جواب سنوں گا، تو تجھ سے سنوں گا!” چرواہے نے بے خوفی سے چنگیز کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا "نہ تم خدا کی طرف سے آئے ہو، نہ تم اپنی مرضی سے آئے ہو ۔تمہیں تو ہمارے اعمال نے یہاں پہنچایا ہے۔جب ہم نے عقل والوں کو نظر انداز کیا، علم والوں کو پیچھے دھکیلا اور جاہلوں، خوشامدیوں، اور نالائقوں کو عزت، طاقت اور قیادت دے دی تو پھر تم جیسے ظالم کا آنا طے تھا!۔تم ہماری نادانی، بے انصافی اور بصیرت سے خالی قیادت کا نتیجہ ہو۔میدان میں گہری خاموشی چھا گئی ۔چنگیز خان ساکت ہو گیا۔ شاید یہ سچائی اس کے دل تک اتر گئی تھی۔
اور پھر اس نے سب کو چھوڑ دیا۔ کسی کا خون نہ بہایا۔ یہ سچ ہے چنگیزخان جیسے فتنے آسمان سے نہیں اترتے۔ یہ قوموں کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔جب علم کو عزت نہ دی جائے، انصاف کو روند دیا جائے، اور نالائقوں کو قیادت ملے۔ تو ظلم، تباہی اور نالائق حکمرانوں سیلابوں زلزلوں کی شکل میں ضرور آتے ہیں ۔اسلام آباد جیسے شہر میں آسمان سے پتھر نہیں برسے مگر برف کے بڑے بڑے گولے ضرور برسے تھے کہ شاید یہ سدھر جائیں۔ کاش ہم نبی ۖکی سنت اور قرآن پر عمل کر رہے ہوتے تو ہم انسانوں کی بھلائی کے لئے کام کرتے انہیں سکھی رکھتے تو یہ موجودہ تباہی کے حالات نہ ہوتے۔ عید میلاد النبی مناتے ہیں مگر منانے والے آپ ۖ کی سنت پر عمل نہیں کرتے۔
کی محمد ۖ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
مگر ہم اسی دنیا کو آخری دنیا سمجھ کر گزار رہے ہیں۔ دعا ہے ہمارے قلب کو بھی نصیب ہوں تیری ذات سے وہی نسبتیں، وہ جو عظمتیں تھیں اویش کی وہ جو رابطے تھے بلال کے۔
بد ترین اعمال اور بد ترین سیلاب
