معلوم نہےں وہ کون سا بذلہ سنج شاعر تھا جس نے پاکستانی پولےس کےلئے ےہ ترانہ لکھا تھا کہ ”پولےس کا ہے فرض مدد آپ کی “۔اب ےہ بھی خبر نہےں کہ شاعر کی مدد سے کےا مراد تھی اور پولےس والے اس کا کےا مطلب لےتے تھے ۔پولےس والوں نے تو ملک کو پولیس سٹےٹ بنا رکھا ہے ۔آپ نے بھی اپنے علاقے مےں اےسے بےنرز لٹکے دےکھے ہوں گے ”محفوظ پنجاب برائے پولےس فلاں ٹےلی فون نمبر ۔“اگرچہ ےہ تحرےر ہے مگر معنی ےہ ہےں کہ پنجاب کو ہر قسم کی پرےشانی سے دور رکھنے کےلئے پولےس حاضر ہے ۔کبھی محافظت اور رکھوالی جن کا فرض تھا ، اب سب کچھ بدل گےا ہے ۔رسول اکرم کی اےک حدےث مےں قرب قےامت کی اےک ےہ بھی نشانی بتائی گئی ہے کہ تب باڑےں فصلوں کو کھانے لگےں گی ۔ےہ شکوہ کہ پولےس وی آئی پی والوں کی سنتی ہے ۔اگر آپ وی آئی پی نہےں تو اس مےں بے چاری پولےس کا کےا قصور ہے کہ آپ عام آدمی ہےں ۔چند روز قبل وزےر اعلیٰ ہاﺅس کے باہر اپنے مطالبات کے حق مےں مظاہرہ کرنے والے نابےنا افراد پر پولےس نے تشدد کےا اور اس وقت ڈنڈے برسائے جب وہ وزےر اعلیٰ ہاﺅس تک جانا چاہتے تھے ۔ان بے وسےلہ لوگوں کی پنجاب پولےس کے ہاتھوں شرمناک پذےرائی سماج کے منہ پر اےک طمانچہ تھا ۔بصےرت سے محروم ان لاچار افراد کے ساتھ پولےس کے تشدد نے ہر درد مند پاکستانی کا سر شرم سے جھکا دےا ۔معذور کا تو لفظ سنتے ہی دل مےں ہمدردی کے جذبات پےدا ہوتے ہےں ۔تشدد کرنے والوں کو اتنی بھی شرم نہ آئی کہ وہ کن پر ظلم ڈھا رہے ہےں مگر صد افسوس کہ لاہور مےں اپنے حقوق کے حصول کےلئے آواز بلند کرنے والے نابےناﺅں پر پولےس کی جانب سے بے پناہ تشدد کےا گےا ۔انہےں کبھی سڑک پر بٹھاےا گےا تو کبھی اس طرح دھکے دئےے گئے کہ ےہ بے کس اےک دوسرے کے ہاتھ اور کندھے تھامے سڑک پر گرتے رہے اور اس وقت ان پر ڈنڈے برسائے جب وہ وزےر اعلیٰ ہاﺅس جانا چاہتے تھے اب ےہ بے چارے جو دےکھ ہی نہےں سکتے تھے وہ بھلا ان ڈنڈوں سے خود کو کےسے بچاتے جو ناگہانی آفت کی طرح ان پر اولوں کی طرح چاروں طرف سے برس رہے تھے ۔پولےس کے اس ناروا عمل سے دنےا بھر مےں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ۔ہونا تو ےہ چاہےے تھا کہ عوامی حکومت کہلانے ولی پارٹی کی رہنما خود آ کر ان سے ملاقات کرتےں اور چند مےٹھے بول کہہ کر ان کے مشتعل جذبات ٹھنڈے کر دےتےں مگر شاےد وہ وزےر اعلیٰ ہاﺅس مےں نہےں ہوں گی ۔کےا ہی اچھا ہوتا کہ نابےنا افراد پر تشدد سے قبل ان کی بات سن کر ان کے نمائندوں کو وزےر اعلیٰ ہاﺅس لے جاےا جاتا اور حکومت کا کوئی نمائندہ ہی ان سے باقاعدہ مذاکرات کر کے ان کی تسلی و تشفی کا سامان کرتا ۔شاےد وطن عزےز کی پولےس انگرےز ناول نگار جوزف کونرڈ کی کہی اس بات کو سچ ثابت کرنے پر ہی اپنی توانائےاں صرف کر رہی ہے کہ ”اےک دہشت گرد اور پولےس مےن اےک ہی ٹوکری سے نکلتے ہےں“۔شکاگو کے مئےر رچرڈ ڈےلی نے 1925ءمےں کہا تھا کہ پولےس گڑ بڑ ،فساد ےا بے ضابطگی پےدا کرنے کےلئے نہےں بلکہ ان سے حفاظت ےا محفوظ رکھنے کےلئے ہے ۔انگرےز سےاستدان گرام وےل نے چار سو سال پہلے برطانوی پارلےمنٹ مےں کہا تھا کہ ضرورت کےلئے کوئی قانون نہےں ،بناوٹی ضرورت ،تخےلاتی مجبوری سب سے بڑے دھوکے ہےں اور اسے خدا کی مرضی ےا قدرت قرار دےنا اور قوانےن کو توڑنا بھی دھوکے ہےں ۔دراصل اقتدار اور اتھارٹی کے نشے مےں محمور پنجاب پولےس ہماری نہےں سےاسی ہے ،جسے قانون اور اہلےت سے ماورا سےاستدانوں نے اپنی سےاسی ضرورتوں کی تکمےل کےلئے تشکےل دےا ہے اور ہمےشہ سےاسی ضرورتوں کےلئے ہی استعمال کےا ہے ۔ےہ تو فقط حکمرانوں اور ان کے اہل خانہ کی حفاظت کےلئے وقف ہے نہ کہ عام شہری کےلئے ۔اےک طرف پوری دنےا مےں معذوروں کو عزت و تکرےم سے نوازا جاتا ہے اور دوسری طرف ہمارے ہاں ان پر ڈنڈے برسا کر ان کی عزت کو تار تار کر دےا جاتا ہے ۔پاکستان کی بلائنڈ کرکٹ ٹےم نے تو قوم کو کرکٹ ٹےم کی جےت کا تحفہ بھی دےا تھا ۔بےنائی سے محروم افراد ملازمتوں مےں طے شدہ دو فےصد کوٹے کے طلبگار تھے ۔آئےن پاکستان کی رو سے نوکرےوں کے کوٹہ سے نابےنا اور معذور شہرےوں کا اےک مخصوص حصہ موجود ہے ۔قانونی طور پر محکمہ کو نوکرےوں کی بھرتی کے وقت معذور شہرےوں کو نوکری دےنا ان کا حق ہے ۔اگر انصاف کے ساتھ دےکھا جائے تو آج تک اس آئےنی حق کی ادائےگی پر عمل نہےں کےا جا رہا ۔وطن عزےز مےں نابےناﺅں اور معذور اور نابےنا ملازم شاےد ہی نظر آئے ۔حکمرانوں کو احساس کرنا چاہےے کہ ان معذور افراد کو ان کے کوٹے کے مطابق نوکرےاں دے ،سہولتےں دے مگر ہمارے ہاں ےہ رےت ہے کہ ان کی جگہ اچھے بھلے لوگ نوکرےاں حاصل کر لےتے ہےں ۔جھوٹے معذوری کے سرٹےفےکےٹ بنوا لےتے ہےں ۔ےوں ےہ اصل حقدار اپنے حق کے حصول مےں ناکام رہ جاتے ہےں ۔اب کےا وہ اس ظلم کے خلاف آواز بھی بلند نہ کرےں،شور بھی نہ مچائےں ۔وزےر اعلیٰ پنجاب مرےم نواز نے اس معاملے کی تحقےقات کا حکم دے دےا ہے ۔ےہ بات بھی حقائق کے منافی معلوم ہوتی ہے کہ ان نابےنا افراد کے تشدد سے چند بےنائی رکھنے والے پولےس ملازمےن بھی زخمی ہوئے ہےں ۔معزز قارئےن بصارت سے محروم افراد کی دنےا بھی اپنی الگ ہوتی ہے ۔ےہ سوال اکثر ذہن مےں گردش کرتا ہے کہ آےا تارےک آنکھوں مےں بھی اےسے ہی خواب اترتے ہےں جےسے روشنی سے منور آنکھوں مےں ۔ےہ سوال سے زےادہ حےرت ہے کہ دنےا مےں بصارت سے محروم افراد نے اےسے کارہائے نماےاں سر انجام دئےے کہ جاں ملٹن ،ہےلن اور ہےلن کےلر دنےا مےں بڑی تبدےلی لانے کا باعث بنے ۔حکومتی اےوانوں مےں فروکش صاحبان اقتدار و اختےار کو ےہ سوچنا چاہےے ےا تو کسی کو بھی جلسے جلوس اور مظاہرے کرنے کی اجازت نہ دی جائے ۔لاہور کی سڑکوں پر روزانہ احتجاجی جلسے ،مظاہرے رےلےاں اور جلوس نظر آتے ہےں ۔جب نابےنا افراد اپنے حق کےلئے پر امن احتجاج کرےں تو حکومت اور پولےس کو ےاد آجاتا ہے کہ کہ جلسے اور جلوس پر پابندی ہے اور عوام مظاہروں کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہےں ےا پھر احتجاج کےلئے کوئی مخصوص مےدان وقف کر دےا جائے جہاں جس کا جو جی چاہے وہ احتجاج کرے ےا مظاہرہ ،سڑک پر ٹرےفک رکے گی نہ کسی شہری اور طالب علموں کو کوئی پرےشانی ہو گی ۔معاشرے مےں ان خصوصی افراد کو توجہ اور حق ملنا چاہےے لےکن ہم ان کے حقوق ادا نہ کرنے کے مجرم ہےں ۔آج ہماری سڑکوں اور گلےوں مےں جتنے بھی معذور لوگ بھےک مانگتے نظر آتے ہےں ،ےہ سب ستم رسےدہ اور حکومت و سماج کے ستائے ہوئے لوگ ہےں ۔انکی مدد کرنا معاشرے اور حکومت کا اہم فرض ہے ۔حق سے محرومی ہی شکاےت اور بعد ازاں احتجاج پر مجبور کرتی ہے ۔آخر مےں نابےنا شاعر تےمور حسن کے دو اشعار ۔
تجھے زندگی کا شعور تھا ترا کےا بنا
تو خاموش کےوں ہے مجھے بتا ترا کےا بنا
جو نصےب سے تری جنگ تھی وہ مری بھی تھی
مےں تو کامےاب نہ ہو سکا ترا کےا بنا
مےں مقابلے مےں شرےک تھا اس لئے
کوئی آ کے مجھ سے ےہ پوچھتا ترا کےا بنا