بنوں چھاﺅنی میں دہشت گردی کی کارروائی ایک بار پھر اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کرگئی کہ مملکت خداداد پاکستان میں امن وامان کی صورت حال بدستور سنگین ہے ،دراصل یہی وہ پس منظر ہے جس میں حکومت نے عزم استحکام آپریشن کرنے کا اعلان کیا مگر افسوس بعض اپوزیشن جماعتوں نے اگر مگر کے ساتھ اعتراض اٹھا ڈالا ، اب سوال ہے کہ درپیش مشکل کا حل کیا ہے ، وطن عزیز میں جاری دہشت گردی پر نگاہ رکھنے والے آگاہ ہیں کہ یہاں سیاسی ، مذہبی اور لسانی بنیادوں پر کشت خون کے واقعات جاری وساری ہیں، اب تک ایک نہیں ہزاروں پاکستانی شہید جبکہ ہزاروں ہی ہی زخمی ہوچکے ، بظاہر اس کی وجہ عوام دشمن عناصر کی جانب سے ایسے انتہاپسند بیانیہ کی تشکیل ہے جو ہمارے ہاں بدستور اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے، ہماری بعض مذہبی وسیاسی قوتیں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس سچائی کا اقرار کرنے پر آمادہ نہیں کہ پاکستان اس وقت تک اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا جہب تک یہاں امن و امان کی صورت حال خراب رہے ، وقت نہیں آگیا ہے ۔۔کہ ہم اگر مگر اور چونکہ چنانچہ سے کام لینے کی بجائے دو ٹوک انداز میں قیام امن کو ترجیح اول بنا لیں، یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہے کہ علاقائی اور عالمی قوتیں پاکستان میں بدامنی کو بنیاد بنا کر ہماری انتظامی صلاحتیوں پر شکوک وشبہات کا اظہار کررہی ہیں، ملک کے اندر اور ملک کے باہر یہ تاثر پیدا کیا جارہا کہ یاں تو پاکستانی ادارے نااہل ہیں یا پھر ان کی صفوں میں اتفاق واتحاد ناپید ہے ، یقینا ایک ایٹمی قوت کا حامل ملک کسی طور پر برداشت نہیں کرسکتا کہ قوموں کی صفوں میں اس کا مذاق اڈایا جائے، سیاسی ومذہبی جماعتوں کو کسی بھی حکومتی پالیسی پر اعتراض کا حق حاصل ہے مگر یہ اعتراض کسی طور پر بلاجواز نہیں ہونا چاہے ، ہم میں سے باخبر لوگ جانتے ہیں کہ ارض وطن میں مذہبی دہشت گردی کب اور کس شکل میں آئی، ماضی کےحکمرانوں نے جس طرح اپنے محدود انفرادی اور گروہی مفاد کے لیے انتہاپسندوں سے ہاتھ ملایا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ یقینا گزرے ماہ وسال میں جو ہوا سوا ہوا اب وقت آگیا ہے کہ ہم تیزی سے آگے بڑھیں ، ماضی کا اسیر رہنے کی بجائے ان غلط پالیسوں سے ملنے والا سبق کسی طو پر نہیں بھلانا چاہے ، کئی دہائیوں قبل اختیار کی جانے والی خارجہ پالیسی کے مضر اثرات آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں،ہمیں کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری افغان پالیسی کئی نقائص کی حامل تھی مثلا ہم یہ سمجھتےرہے کہ حامد کرزئی کو کابل سے بے دخل کردیا جائے تو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر نہیں بہترین ہوجائیں گے، پھر جب اشرف غنی برسر اقتدار آئے تو بھی افغانستان کو دیرینہ دوست بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا، اشرف غنی کے ہمارے خلاف مورچہ زن ہونے پر ہم نے یہ خیالی پلاو پکانا شروع کردیا کہ جب افغان طالبان برسر اقتدار آئیں گے تو وہ پاکستان کے ان احسانات کا بدلہ چکائیں گے جو سالوں سے نہیں کئی دہائیوں سے ہم نے ان پر کیے مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا، آج صورت حال یہ ہے کہ افغانستان میں کالعدم ٹی پی پی کے اراکین کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں جہاں سے وہ جب چاہیں پاکستان میں اپنے نیٹ ورک کے زریعے کاروائی کرڈالتے ہیں۔ملک میں امن وامان کی صورت حال اس قدر مخدوش ہوچکی کہ ہ چین جیسا ہمارا دوست ہمسایہ ملک بھی پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور سیکورٹی کی حالت زار پر دہائی دے رہا اس صورت حال میں قومی سطح پر ہم میں اتفاق نہ ہونے کا فائدہ یقینی طور پر دشمن کو ہورہا ہے ،بنوں چھاونی میں دہشت گردی کی کاروائی کو ناکام بنانے کے لیے ہماری سیکورٹی فورسز کی قربانیاں اپنی جگہ مگر اصل چیلنجز یہ ہے کہ ہم کب اور کیسے درپیش عفریت پر قابو پاکر علاقائی اور عالمی سطح پر سرخرو ہونگے، یقینا دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمہ پر ایک دوسرے کی رائے سے اختلاف کرنا حیران کن نہیں مگر چیز کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہم باہمی بداعتمادی اور نااتفاقی کا تاثر نہ دیں، ، بنوں چھاونی میں دہشت گردی اور اس کے بنوں میں امن مارچ کء سنجیدہ سوالات اٹھا چکا ، بادی النظر میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ بنوں کے عوام سیکورٹی فورسز کی جانب سے کسی پڑے آپریشن کے حق میں نہیں ، حال ہی میں بنوں میں امن مارچ کے بعض شرکا کی جانب سے جس طرح سیکورٹی فورسز کے خلاف نعرے بازی کی گی وہ بلاشبہ تشویشناک ہے ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہے کہ کسی بھی ملک کی فورسز اس وقت تک کوئی جنگ نہیں جیت سکتیں جب تک اس کے عوام پشت پر نہ ہوں ، مملکت خداداد کے حالات یقینا اس لحاظ سے باعث تشویش ہیں کہ بعض سیاسی مذہبی حلقوں میں اپنی ہی سیکورٹی فورسز کے خلاف بیانیہ تشکیل دیا جاچکا ہے ، ہم جانتے ہیں کہ اس صورت حال پر وزیر اعظم شبہازشریف برملا اپنی ناپسندیگی کا اظہار کرچکے ، آج ہمارا وطن ہم سے تقاضا کررہا ہے کہ ہم سیاسی ، مذہبی اور سماجی قوتیں دہشت گردی کے خلاف سیہ پلائی دیوار بن جائیں تاکہ ہمارا لوگ دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرکے حقیقی معنوں میں بہترین انداز میں زندگی سے لطف اندوز ہوسکیں۔