Site icon Daily Pakistan

بنگلہ دیش ! عبوری حکومت چیلنجز

بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کا بڑا زرخیز خطہ ہے قریب ہی ہمالیہ پہاڑوں کا طویل سلسلہ ہے پٹ سن اور چاول کیش کراپس ہیں۔ سلہٹ کی پہاڑیوں پر چائے کثیر مقدار میں پیدا ہوتی ہے ۔1947 سے 1971 تک یہ پاکستان کا حصہ رہا ۔ سیاست دانوں کی غلط پالیسیوں اور اقتدار کی حوس کی وجہ سے یہ ایک علیحدہ ملک بنگلہ دیش بن گیا۔ مختلف حکومتیں برسر اقتدار آ تی رہیں ان کی اولیں ترجیع ملکی معیشت کو مضبوط کرنا تھا۔ سمال سکیل انڈسٹری کے فروغ کے لئے مائکرو فنانسنگ اسکیم متعارف کرائی ۔ عام آدمی پر اعتبار کرکے بینکوں نے عوام کو معمولی شرح سود پر قرضے جاری کئے جس سے ملک بھر میں چھوٹی صنعتوں کا جال بچھ گیا۔ ٹیکسٹائل سیکٹر پر خاص توجہ دی گئی ریڈی میڈ گارمنٹس پر بھی سرمایہ کاری کی گی اب بنگلہ دیش اس صنعت میں بین الاقوامی مقابلہ کر رہا ہے ۔ مثبت معاشی پالیسیاں بنا کر آ ئی ایم ایف پر انحصار کم کر دیا ۔ ایکسپورٹس بڑھ رہی تھیں ٹیکس کلکشن زر مبادلہ کے ذخائر کسی بھی ترقی پذیر ملک کی نسبت بہتر تھے لیکن ایک ڈکٹیٹر کی حیثیت سے شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد پندرہ سال سے حکومت کر رہی تھیں۔ انسانی آزادیاں اور بنیادی حقوق معطل تھے ۔ حسینہ حکومت کو کوئی چیلنج کرنے والا نہیں تھا جو بھی سر اٹھاتا وہ اسے کچل دیتیں۔ جماعت اسلامی اس کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی تھی ۔ مخالفین کو کچلنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا اس کے سامنے حزب اختلاف نامی کوئی چیز نہیں تھی ۔ بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک نے گزشتہ 15 سال سے حکومت کرنے والی شیخ حسینہ واجد کو استیفی دے کر ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ طلبا رہنماں کے نامزد کردہ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس نے بنگلہ دیش کے وزیراعظم کا حلف اٹھا کر اپنی مختصر کابینہ کا اعلان کر دیا ہے۔ تعلیمی ادارے کھل چکے ہیں زندگی آہستہ آہستہ معمول پر آ رہی ہے۔ گارمنٹس فیکٹریوں میں کام شروع ہو چکا ہے۔ اس وقت عبوری حکومت کو بہت سے چیلنجرز کا سامنا ہے جن میں سب سے بڑا مسلہ امن و امان کا قیام ہے۔ ڈھاکہ کے کئی تھانوں کے افسران کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ طلبا رہنماں نے حکومت پر دبا برقرار رکھا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور کئی ججوں نے استیفے دے دئے ہیں کہا جاتا ہے وہ حسینہ حمایتی تھے اب بھی طلبا رہنما بلواسطہ حکومت کو کنٹرول کر رہے ہیں وزارت داخلہ کے ایک ایڈوائزر کے مطابق حالات نارمل ہو رہے ہیں ہنگاموں کی وجہ سے معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے خاص طور پر ٹیکسٹائل سیکٹر پر بہت منفی اثرات پڑے ہیں ۔ ملک میں کچھ اصلاحات کے بعد فری اور فیر انتخابات ہونے چاہیں تاکہ عوام اپنی مرضی کی حکومت منتخب کر سکیں اور جمہوریت بحال ہو۔ دراصل بنگالی قوم بہت جذباتی ہے ایک وقت تھا کہ انہوں نے شیخ مجیب کو اپنا نجات دہندہ قرار دے کر انہیں بنگلہ بندھو بنایا اور بابائے قوم کا درجہ دیا پاکستان سے آ زادی کے بعد ان کی تصاویر سرکاری دفاتر میں آویزاں ہوتی تھیں لیکن جلد ہی بنگالیوں نے اس کے پورے خاندان کو ان کی رہائش گاہ پر قتل کر دیا۔ حسینہ واجد نے اپنے دور حکومت میں والد کے نظریے اور ورثے کو برقرار رکھا۔ ملک کی بڑی شاہراہوں پر شیخ مجیب کے قد آور مجسمے آویزں تھے طلبا تحریک نے سب کو روند ڈالا ۔ بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک کی وجہ بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں شریک ہونے والوں کی اولادوں کے لئے سرکاری ملازمتوں میں 30 فیصد کوٹہ مقرر کرنا تھا سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں اسے 5 فیصد کر دیا تھا لیکن طلبا وزیراعظم کے استعفے سے کم پر راضی نہیں تھے۔ شیخ حسینہ واجد پندرہ سال تک ملک کے سیاہ و سفید کی مالک بنی رہیں کیونکہ وہ امریکہ اور مغرب کی ہر بات مانتی تھی۔ بھارت حسینہ حکومت کے خاتمے کا الزام پاکستان پر لگا رہا ہے۔ شیخ حسینہ واجد پاکستان کے سخت خلاف تھیں ان کے دور میں ہمارے سفارتی تعلقات مثالی نہیں رہے ۔ الجزیرہ بی بی سی اور دیگر نشریاتی اداروں کی رپورٹس کے مطابق ملک کی صورت حال مستحکم نہیں ہے گھرا جلا اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے ۔ ادھر بنگلہ دیش کے ہندو اقلیت خاندانوں ملک چھوڑ رہے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی ہندو فیملیز اور حسینہ حکومت کے حامی کارکن انڈیا کے بارڈر پر ہزاروں کی تعداد میں اکٹھا ہونا شروع ہو گے تھے۔ وہ بھارت میں پناہ لینا چاہتے تھے انڈین حکومت نے ابھی تک بارڈر نہیں کھولا کیونکہ یہ مہاجرین ہندوستانی معیشت پر بوجھ ہوں گے اور بعد میں حکومت کےلئے مسائل پیدا کریں گے۔ بھارت کے وزیراعظم مودی نے کہا کہ ہم بنگلہ دیش کے مہاجرین کا خیر مقدم کریں گے۔ انڈیا تو شروع سے ہی حسینہ واجد حکومت کا حمایتی رہا ہے اور اس نے ہی شیخ مجیب کو ساتھ ملا کر مکتی باہنی کے زریعے بنگلہ دیش بنوایا اور اسے ہیرو اور بابائے قوم کا درجہ دیا۔ بنگالی حسینہ حکومت سے نجات کو دوسری آزادی قرار دے رہے ہیں۔ ملک میں زندگی نارمل ہو رہی ہے لیکن عبوری حکومت کے لئے مسائل بہت زیادہ ہیں ۔ ان کی اولین ترجیع امن وامان کا قیام شفاف الیکشنز اور جمہوریت کی بحالی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنگالیوں میں مستقل مزاجی کب آ ئے گی ۔ اگر اسی طرح جلاو گھراو توڑ پھوڑ اور ایجی ٹیشن کی سرگرمیاں جاری رہیں تو اب تک کی ترقی غارت جائے گی۔

Exit mobile version