مبصرین کے مطابق یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ نریندر مودی کے دورِ حکومت میں بھارتی مسلح افواج جس تیزی سے ”زعفرانی تشکیل اور ہندوتوا” کے رنگ میں ڈھل رہی ہیں، وہ نہ صرف بھارت کے آئینی اصولِ سیکولرازم کے لیے چیلنج ہے بلکہ اس کے عسکری نظم و ضبط اور غیر جانب داری کے لیے بھی خطرناک رجحان بن چکا ہے۔ مبصرین کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سخت گیر پالیسیوں اور ہندو قوم پرستی کے فروغ نے بھارتی فوج، فضائیہ اور بحریہ کے ادارہ جاتی ڈھانچے میں ایسے نظریاتی عناصر داخل کیے ہیں جو تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ اسی تناظر میں بھارتی فوج پر ”مودی کی سینا” بننے کا الزام پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ حالیہ برسوں میں بھارتی فوج کے اندر مذہبی علامتوں، ہندو رسومات اور سیاسی بیانیوں کو جس طرح فروغ دیا گیا، اس نے بھارتی افواج کی غیر جانب دار حیثیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ مثال کے طور پر جنوری 2025 میں نئی دہلی کے ساؤتھ بلاک میں بھارتی آرمی چیف کی لاؤنج سے 1971 کی جنگ کا تاریخی پینٹنگ ہٹاکر اس کی جگہ ”کرم کشیتر” نامی آرٹ ورک نصب کیا گیا، جس میں کرشن اور چانکیہ جیسے ہندو دیوتاؤں کو جدید جنگی ٹینکوں اور میزائلوں کے ساتھ دکھایا گیا۔ سنجیدہ ماہرین کے بقول یہ تبدیلی محض ایک تصویر کی تبدیلی نہیں بلکہ بھارت کے عسکری نظریے کی سمت متعین کرتی ہے۔اسی طرح دسمبر 2024 میں لیہ کے نزدیک پینگونگ تسو کے علاقے میں ”فائر اینڈ فیوری کور” نے ہندو حکمران شیواجی کا مجسمہ نصب کیا، جس کے ساتھ زعفرانی جھنڈا بھی لہرا رہا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس حساس سرحدی علاقے میں اس قسم کا مذہبی اظہار بھارتی فوج کے پیشہ ورانہ معیار کے بجائے ہندوتوا نظریے کے فروغ کی جانب اشارہ کرتا ہے۔یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بھارتی عسکری قیادت خود مذہبی رسومات میں بھرپور طریقے سے شریک ہو رہی ہے۔ 2025 کے ”نیشنل یونٹی ڈے” پر بھارتی آرمی چیف نے نہ صرف مذہبی پجاریوں سے ”تلک” اور ہار وصول کیا بلکہ مکمل فوجی وردی میں ہندو رسومات انجام دیں۔ اسی تناظر میں مئی 2025 میںموصوف نے مدھیہ پردیش میں ہندو روحانی رہنما رام بھدر آچاریہ کے آشرم کا ”سرکاری دورہ” کیا جہاں انہیں ”دکشا” یعنی مذہبی دی دی گئی۔ مذہبی پیشوا نے اس موقع پر آرمی چیف سے ”آزاد کشمیر واپس لانے” کو اپنی ”دَکْشِنَا” یعنی تحفہ قرار دیا۔ ماہرین کے بقول یہ صورتحال فوجی اداروں کی مذہبی اور سیاسی سرحدوں کو مکمل طور پر دھندلا رہی ہے۔یہ امر بھی خصوصی اہمیت رکھتا ہے کہ مودی حکومت کے زیرِ اثر بھارتی عسکری آپریشنز کے نام بھی مذہبی نظریات کے مطابق رکھے جانے لگے ہیں۔ ”آپریشن سندور” اور ”آپریشن مہادیو” اس کی واضح مثالیں ہیں، جن کے ذریعے بی جے پی اپنے داخلی سیاسی بیانیے کو فوجی دائرے میں شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے حالانکہ اس سے نہ صرف عسکری غیر جانب داری کمزور پڑتی ہے بلکہ فوج براہ راست ہندو قوم پرستی کے سیاسی مقاصد کا حصہ بننے لگتی ہے۔بھارتی فوج کے اندر نظریاتی اثرات صرف رسومات تک محدود نہیں رہے بلکہ بھرتی اور تربیتی نظام تک پہنچ چکے ہیں۔ ”اگنی پتھ اسکیم” کے تحت آنے والے ہزاروں نوجوانوں کے بارے میں رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ ان میں بڑی تعداد راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) اور دیگر ہندو قوم پرست تنظیموں سے وابستہ ہے، جو مستقبل کے عسکری کلچر کو براہ راست متاثر کرے گی۔ اسی طرح ساینیک اسکولز، جو افسران کی اگلی نسل تیار کرتے ہیں، ہندوتوا سے وابستہ گروپوں، ودیا بھارتی اور رام مندر تحریک کے اثر میں آ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں پورا ادارہ جاتی ڈھانچہ زعفرانی سوچ سے مشروط ہوتا جا رہا ہے۔اسی تناظر میں بھارتی افواج میں اقلیتی افسران کے خلاف تعصب اور دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق سکھ، مسلمان اور مسیحی افسران کو زبردستی ہندو رسومات میں شرکت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ 2025 میں کرسچن افسر لیفٹیننٹ سیموئل کمالیسن کو اسی بنیاد پر فوج سے برطرف کر دیا گیا، اور دہلی ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا، جو بھارتی فوج کی بدلتی ہوئی مذہبی سمت کی کھلی تصویر ہے۔مزید برآں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، خصوصاً ہیومن رائٹس واچ کی 2025 رپورٹ میں 520 سے زائد ماورائے عدالت ہلاکتوں اور حراستی تشدد کے واقعات درج ہیں، جنہیں بھارت کے اندر بڑھتے ہوئے نظریاتی عسکریت پسندی اور اقلیت دشمن رویوں سے جوڑا جا رہا ہے۔ماہرین کے مطابق یہ تمام واقعات بھارت کی عسکری شناخت میں ایک ایسے دور کی نشاندہی کرتے ہیں، جہاں پیشہ ورانہ غیر جانب داری کے بجائے سیاسی وفاداری، ہندو مذہبی علامات اور بی جے پی کا سخت گیر بیانیہ، فوجی اداروں کی سمت کو متعین کر رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارتی مسلح افواج نہ صرف ”مودی کی سینا” بن چکی ہیں بلکہ خطے کے اسٹریٹجک توازن کے لیے بھی نیا خطرہ بنتی جا رہی ہیں۔یہ بات قابلِ غور ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں فوج کو ریاستی غیر جانب داری اور آئینی سیکولرازم کا محافظ ہونا چاہیے، وہاں اس کی شناخت کا مکمل طور پر ایک مذہبی، سیاسی اور نظریاتی رنگ اختیار کر لینا، ادارے کی پیشہ ورانہ سالمیت، یکجہتی اور عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ مبصرین کے بقول اگر بھارتی عسکری اداروں کی یہ زعفرانی تشکیل جاری رہی تو نہ صرف خطے میں امن متاثر ہوگا بلکہ بھارت کے اندرونی اتحاد اور ادارہ جاتی توازن کو بھی گہرا دھچکا لگے گا — اور یہی وہ خطرہ ہے جس پر دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سنجیدہ حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ عالمی برادری نے اگر بروقت اس صورتحال کا سنجیدہ نوٹس نہ لیا تو آنے والے دنوں میں پورے خطے کا ماحول شدید متاثر ہوگا۔
بھارتی افواج میں زعفرانی نظریات کا فروغ ۔۔!

