بھارتی سپریم کورٹ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی زیر قیادت ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت کی طرف سے منظور کئے گئے متنازعہ وقف ترمیمی ایکٹ کی بعض دفعات پر عمل درآمد کو معطل کردیاہے۔ مودی حکومت نے مسلمانوں کی وقف کردہ املاک سے متعلق ایک ترمیمی ایکٹ منظور کیا تھا، جس کی تقریبا تمام مسلم تنظیمیں سخت مخالفت ہیں۔ مسلمانوں نے اس متنازعہ قانون کے خلاف بھارت بھر میں احتجاج کیا اوراسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیاتھا۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح پر مشتمل سپریم کورٹ کے بنچ نے وقف ایکٹ کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران اپنا عبوری حکم سناتے ہوئے حتمی فیصلہ آنے تک ایکٹ کی بعض دفعات پر عمل درآمد کو معطل کردیاہے۔ درخواست گزاروں نے اس پورے متنازعہ قانون کو معطل کرنے کی اپیل کی تھی، تاہم سپریم کورٹ نے قانون کی بعض دفعات پر عمل درآمد روک دیاہے۔ عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہاکہ وقف بورڈ میں تین سے زیادہ غیر مسلم رکن نہیں ہونے چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو بورڈ کا سی ای او مسلم ہونا چاہیے تاہم سینٹرل وقف کونسل میں چار سے زیادہ غیر مسلم رکن بھی نہیں ہونے چاہئیں۔مودی حکومت نے نئے قانون میں وقف املاک کی ملکیت سے متعلق مسائل میں حتمی ثالث کے طور پر ضلع کلکٹر کو اختیار دیا تھا، جس پر عمل درآمد سپریم کورٹ نے روک دیا ہے۔ عدالت کے مطابق ایک کلکٹر کو ذاتی شہریوں کے حقوق کا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جب تک ٹریبونل کے ذریعہ فیصلہ نہیں ہوتا اس وقت تک کسی بھی فریق کے خلاف تیسرے فریق کے حقوق پیدا نہیں کیے جا سکتے۔ مودی حکومت کے وقف ترمیمی ایکٹ میں جائیداد وقف کرنے والے مسلمان پر شرط عائد کی تھی کہ اس نے کم سے کم پانچ سال تک اسلام پر عمل کیا ہواور اسے اس کا ثبوت دینا ہو گا۔چیف جسٹس گوائی نے اس دفعہ کو بھی معطل کرتے ہوئے کہاکہ کسی طریقہ کار کے بغیر، یہ صوابدیدی طاقت کے استعمال کا باعث بنے گالہذااس شق کو بھی معطل کیا جانا چاہیے ۔ وقف ایکٹ کے خلاف مسلمانوں کی اہم تنظیموں آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ اورجمعیت علما ہند ، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی اور دیگر نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیاتھا۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ تین سماعتوں کے دوران دلائل سننے کے بعد اپنا عبوری حکم جاری کیا۔ گجراور بکروال برادری کی شدید مخالفت اور احتجاج کے باوجود بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا نے غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر سے متعلق تین متنازعہ بلوں کو منظور کر لیا ہے،جن میں پہاڑی برادری کو شیڈول ٹرائبز کی فہرست میں شامل کرنا بھی شامل ہے۔ راجیہ سبھا نے اس سے قبل مقبوضہ کشمیر سے متعلق تین بلوں کو بھی منظور کیاتھاجس میں دیگر پسماندہ طبقات کو بلدیاتی اداروں میں ریزرویشن دینے اور مقبوضہ علاقے میں شیڈول ٹرائبز اور دیگر قبائل کی فہرستوں میں ترمیم کرنا شامل ہے۔منظور کئے گئے بلوں میں آئین (جموں و کشمیر)شیڈولڈ ٹرائبز آرڈرترمیمی بل،شیڈول کاسٹس آرڈر ترمیمی بل اور جموں و کشمیر لوکل باڈیز قوانین ترمیمی بل 2024 شامل ہیں۔آئین جموں و کشمیر شیڈولڈ ٹرائبز آرڈرترمیمی بل کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں چاربرادریوں گڈا برہمن، کولی، پڈاری قبیلہ اور پہاڑی نسلی گروپ کو شیڈول ٹرائبز کی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔جموں و کشمیر لوکل باڈیز لازترمیمی بل جسے بھارتی مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نے راجیہ سبھا میں پیش کیاتھا، مقبوضہ کشمیر میں مقامی اداروں میں او بی سی کو ریزرویشن فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس وقت مقبوضہ علاقے میں پنچایتوں اور میونسپل کارپوریشنوں میں او بی سی کیلئے سیٹوں کے ریزرویشن کا کوئی انتظام نہیں ہے۔بھارتی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت سے متعلق اہم قانون سازی کرنے جارہی ہے جس کے ذریعے جموں وکشمیر میںنئی دہلی کے اختیارات میں اضافہ ہوجائے گا۔130واں آئینی ترمیمی بلـ2025 کے تحت اگر کسی ریاست کا وزیراعلی یا کوئی بھی وزیر مملکت 30 دن تک حراست میں رہتا ہے (چاہے اس کو قصوروار نہ ٹھہرایا گیا ہو) تو گورنر یا مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لیفٹیننٹ گورنر اسے برخاست کر سکتے ہیں۔اس ترمیم کا اطلاق وزیراعظم پر بھی ہوگا۔ یعنی صدر کے پاس وزیراعظم کو برخاست کرنے کا اختیار ہوگا۔ تاہم اس بات کا امکان صفر ہے کہ بھارتی حکومت کی کوئی بھی تفتیشی ایجنسی ان ایجنسیوں کو کنٹرول کرنے والے شخص (یعنی وزیر اعظم) کو گرفتار کرے اور پھر اسے 30 دن کے لیے جیل میں رکھے۔ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ترمیمی بل نئی دہلی کو مزید اختیارات اور منتخب حکومت پر براہِ راست گرفت مضبوط کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ترمیم کے بعد لیفٹیننٹ گورنر کو وزرا کو براہِ راست عہدے سے ہٹانے کا اختیار حاصل ہوگا۔ وزیراعلیٰ یا کوئی بھی وزیر پانچ سال یا زائد سزا والے جرم میں صرف 30 دن کی حراست پر بھی عہدے سے ہٹادیا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں بھارتی حکومت کو وزیرِاعلی اور کابینہ ارکان کو معزول کرنے کا نیا اختیار حاصل ہو جائے گا۔یہ اقدام عدالت میںبھارتی حکومت کی جانب سے ریاستی حیثیت بحال کرنے کی یقین دہانی کے برعکس تصور کیا جارہا ہے۔ ترمیمی بل منتخب یونین ٹیریٹری حکومت کے اختیارات کم کر کے جموں و کشمیر پر مرکزی حکومت کا کنٹرول مزید مضبوط کرے گا۔اس کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کی تنظیم نو (ترمیمی) بل میں بھی ایسی ہی ایک شق شامل کی گئی ہے ریاست کی بحالی کے بارے میں قیاس آرائیوں کے برعکس۔
بھارتی پارلیمنٹ میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق 3متنازعہ بل منظور
