Site icon Daily Pakistan

بھارت : سوشل میڈیا پرکنٹرول ناگزیر

سوشل میڈیا کے پیغامات اور مواد پر قابو پانا دنیا کی کسی حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ معلومات اور اطلاعات تک رسائی اور اس کی ترسیل کا یہ ایک ایسا جن ہے جو باہر آ چکا ہے اور جسے دوبارہ قید نہیں کیا جا سکتا۔یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس نے پوری دنیا میں ہر شخص کو اپنے خیالات اور اظہار کی آزادی دی ہے۔ خیالات اور اظہار کا یہ ایک ایسا انقلاب ہے جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہورہے ہیں۔اس پر قابو پانے کی کوشش ہواو¿ں کا رخ بدلنے کے مترادف ہے۔جمہوری ملکوں میں بھارت کا شمار ان چند ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں اب بھی سیاسی جماعتیں، حکومت اور مذہبی گروپ فرد کی آزادی پر غالب آنے اور ان کی طرزِزندگی پر اپنے تصورات مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ فیس بک نے گذشتہ دنوں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق بھارت نے پوری دنیا میں سب سے زیادہ فیس بک سے پیغامات ہٹانے کی درخواست کی۔ اس رپورٹ کے مطابق 2014 میں بھارتی حکومت کی درخواست پر 5832 پیغامات کو ہٹایا گیا۔بھارتی وزارت دفاع نے فوج سے متعلق سوشل میڈیا پر غیر قانونی مواد کے بارے میں نوٹس جاری کرنے کا اختیار اب فوج کے سپرد کردیا۔اس مقصد کیلئے وزارت دفاع نے ایک اعلیٰ فوجی افسر، ایڈیشنل ڈائریکٹوریٹ جنرل سٹریٹجک کمیونی کیشن کو "نوڈل آفیسر” مقرر کر دیا۔یہ افسر آئی ٹی ایکٹ کے سیکشن 79(3)(b) کے تحت بھارتی فوج سے متعلق غیر قانونی مواد کے بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ہٹانے کی درخواستوں سمیت نوٹس بھیج سکتا ہے۔اس نوٹیفکیشن سے پہلے بھارتی فوج غیر قانونی مواد کو ہٹانے یا بلاک کرنے کیلئے الیکٹرانکس اور آئی ٹی کی وزارت پر انحصار کرتی تھی۔اس نوٹیفکیشن کے ساتھ، اے ڈی جی (سٹریٹجک کمیونی کیشن) اب کیسزکی شناخت کر سکتے ہیں اور بھارتی فوج سے متعلق غیر قانونی مواد کے بارے میں میڈیا پلیٹ فارمز کو براہ راست نوٹس بھیج سکتے ہیں۔ اس کے بعد یہ ثالثوں پر منحصر ہوگا کہ وہ اس مواد کو کیسے ہینڈل کریں۔ اس طرح کے مواد کے اثرات فوری ہوتے ہیں اور الیکٹرانکس اور آئی ٹی کی وزارت کے استعمال میں زیادہ وقت لگتا ہے۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حقائق اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی فوج کو جب اپنا امیج خطرے میں نظر آتا ہے تو وہ قانون سازی کرتے ہیں، یہ تمام حقائق مغربی ممالک کیلئے بھی مثال ہیں جو بھارت کو جمہوریت کا چیمپئن قرار دیتے ہیں کہ وہاں پر بھی فوج کو تحفظ دینے کیلئے قدغن لگائی جا رہی ہے۔سوشل میڈیا پر کسی پیغام یا ویڈیو پر پابندی لگانے کے لیے کسی سیاسی جماعت یا تشدد برپا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی مذہبی تنظیموں کے طرف سے احتجاج یا ایک ایف آئی آر درج کرانا کافی ہے۔ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ کے اس دور میں بھارتی جمہوریت میں ریاست اور مذہبی تنظیمیں مخالفت اور کبھی کبھی نفرت انگیز پیغامات کو سنسر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کچھ روز قبل خود حکومت نے اعتراض کیا تھا کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں آئیڈیاز اور خیالات پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی لیکن اس دور میں بھی کچھ لوگ خیالات، نظریات، عقائد اور تصورات پر پابندی عائد کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ ابتدائی طور پر انھیں کامیابی بھی ہو رہی ہے۔بھارت کی سیاسی تاریخ میں پہلے ”سوشل میڈیا انتخابات“ سمجھے جانے والے2014کے انتخابات نے بھارتی سیاست میں سوشل میڈیا انقلاب کی بنیاد رکھی۔2009 کے عام انتخابات سے قبل کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور جو قبل ازیں اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل کے طور پر بھی فرائض نبھا چکے تھے، ٹوئٹر پر اکاﺅنٹ رکھنے والے واحد بھارتی سیاستدان تھے۔2014 کے انتخابات کے موقع پر تمام سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کو نمایاں حد تک بڑھایا۔سوشل میڈیا استعمال کرنے والی ڈیجیٹل نسل کو متحرک کرنے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کامیابی نے حریف جماعتوں کو بھی سوشل میڈیا روابط بہتر بنانے پر مجبور کیا۔ نتیجتاً اب بھارت کی ڈیجیٹل اسپیس میں سیاسی رنگ کے حامل لاکھوں پیغامات موجود ہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے انتخابات میں دھاندلی کا امکان بڑھاتے ہیں۔بی جے پی چونکہ سوشل میڈیا کی دنیا میں برتری حاصل کرچکی ہے، اس سلسلے میں ہندوتا اس کی غلط معلومات پر مبنی مہم کا مرکزی نکتہ بن کے ابھرا ہے۔ بھارت میں غلط معلومات چار موضوعات پر مبنی ہوتی ہیں جو کہ ہندو قوم پرست نظریے کے گرد گھومتے ہیں: ”ہندو طاقت اوربرتری، (ہندو ثقافت کا) تحفظ اور احیائ ، ترقی اور قومی فخر، نیز نریندر مودی کی شخصیت اور بہادری۔“کسانوں کے حالیہ احتجاج کی حیثیت مشکوک بنانے کے لیے بی جے پی نے اپنے مسلح ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے پردہ اٹھاتے ہوئے ”ریاست مخالف“ پیغامات استعمال کیے تاکہ مخالفین کی آواز کو دبایا جاسکے۔ اسی سلسلے میں بی جے پی نے مظاہرہ کرنے والے کسانوں کو ”خالصتان کا حامی“ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ نومبر2020میں بی جے پی کے آئی ٹی ونگ کے سربراہ امیت ملاویا نے مظاہرہ کرنے والے کسانوں کیخلاف پولیس مظالم کے الزامات کے دفاع میں ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی تھی۔ بعد ازاں ٹوئٹر نے اس ویڈیو کو غیر مستند قرار کیا۔ بعد ازاں بی جے پی رہنماو¿ں کی بڑی تعداد جن میں تاجیندر بگا (بی جے پی دہلی کے ترجمان)، ویرون گاندھی (بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ) اور ہریش کھرانہ (بی جے پی دہلی کے ترجمان) شامل ہیں، غلط معلومات کا پرچار کیا اور مظاہرہ کرنے والے کسانوں کو خالصتان تحریک سے جوڑا۔

Exit mobile version