بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں عجیب و غریب طرح کے انوکھے انوکھے عجوبے بھی پائے جاتے ہیں۔ اتنی بڑی آبادی میں مختلف رسم و رواج، مذہب اور عقیدتوں کے ماننے والے رہتے ہیں۔ کوئی گائے کا پیشاب پیتا ہے تو کوئی کتے سے شادی کرنے بیٹھ جاتا ہے یہاں تک کہ وہاں گائے اور بندروں کو بھی پوجا جاتا ہے۔ اور تو اور غذائی اجناس اور خوراک و ادویات میں گائے کا پیشاب اور گوبر استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے بھارت سے غذائی اجناس ، اشیائے خورونوش کی درآمد پر اس لئے پابندی عائد کر دی کہ ان اشیاءمیں مردہ چوہوں کے اجزائ، پرندوں کے پر اور نقصان دہ کیڑے مکوڑے پائے گئے تھے۔ ادارے کی تحقیقات کے مطابق ان اشیاءمیں گائے کا پیشاب اور گوبر کی آمیزیش بھی تھی۔ بعض اشیاءمیں تو اس کی مقدار 18 فیصد سے بھی زائد تھی۔ لہٰذا امریکی ادارے نے کینیڈا ، برطانیہ ، یورپین یونین ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو بھی یہ اطلاعات فراہم کیں۔بھارت میں گائے کا پیشاب دودھ سے زیاد فروخت ہونے لگا ہے، فی لیٹر پیشاب کے نرخ 80 سے سو روپے ہیں ۔بھارت میں گائے کے پیشاب کا سب سے بڑا خریدار یوگا گرو بابا رام دیو ہے جو اس غلاظت سے مختلف مصنوعات تیار کرتا ہے جس کی وجہ سے کئی عالمی سطح کے کارروباری گروپس کی بھارت میں تیار کردہ پروڈکٹس کے بند ہونے کا خدشہ پید اہوگیا ہے۔رام دیو یورین سے تیار اپنی مصنوعات کی فروخت کیلئے یومیہ ڈیڑھ لاکھ روپے اشتہاری مہم پر خرچ کرتا ہے۔ بھارت میں ایک تھراپی ہیلتھ کلینک ماہانہ 25ہزار لیٹرپیشاب خریدتا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ ا س نے گزشتہ دو دہائیوں میں 12لاکھ مریضوں کا علاج اسی غلاظت سے کیا ہے جو اپنی پروڈکٹس کو یومیہ چار ہزار آن لائن مریضوں کو فروخت کرتا ہے۔بھارتی جنتا پارٹی کے لوک سبھا کے رکن سبرامینیم سوامی گائے کے تحفظ کے لئے موجودہ حکومتی کوششوں سے اتفاق نہیں کرتے، انہوں نے کہاکہ بھارت اس وقت دنیا میں گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اسی لئے بھینس کی آڑ میں لوگ گائے کو ذبح کرتے ہیں اور بھینس کا گوشت بنا کر فروخت کرتے ہیں۔تازہ ترین تحقیقات میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ بھارتی ادویہ سازکمپنیوں نے دواو¿ں میں مضرصحت اجزا استعمال کیے اور ان غیرمعیاری ادویات کی بدولت دنیا بھر میں سیکڑوں بچے موت کا شکار ہوچکے ہیں۔تازہ اعداد وشمار کے مطابق 2022 سے اب تک ازبکستان ، انڈونیشیا سمیت افریقی ممالک میں سیکڑوں بچے بھارتی ادویات سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔18 دسمبر 2022ءمیں ازبکستان میں 18 بچے زہریلی بھارتی دوا کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، اکتوبر 2022ءمیں افریقی ملک گیمبیا میں بھارتی تیار کردہ کھانسی کے سیرپ نے 69 بچوں کی جان لی۔اکتوبر 2022ءمیں ہی انڈونیشیا نے 99 بچوں کی اموات کے بعد بھارت سے ہر قسم کی ادویات کی درآمدات پر پابندی عائد کردی تھی۔ اسی طرح 15 جون 2023 ءکو لائبیریا اور نائجیریا نے زہریلا ہونے کی وجہ سے بھارتی تیار کردہ پیرا سیٹا مول سیرپ کے 250 سے زائد کنٹینرز ضبط کرلیے۔ بھارتی دواساز کمپنیوں کی جانب سے بچوں کی اموات چھپانے کیلے 60 ہزار ڈالرز کی رشوت دینے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔جعلی ادویات بنانے والی بھارتی فارما کمپنیاں آندھرا پردیش، بہار، دہلی، گوا، گجرات، ہریانہ، ہماچل پردیش، کرناٹک، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، پڈوچیری، پنجاب، راجستھان، سکم، تامل ناڈو، تلنگانہ، یوپی، اتراکھنڈ اور مغربی بنگال میں واقع ہیں۔ امریکی ادارے ایف ڈی اے کے مطابق رواں سال فروری میں بھارت میں تیار کردہ آنکھوں کے قطرے امریکا میں آنکھوں کی وبا پھیلانے کا باعث بنے۔غیر معیاری اور مضر صحت ادویات کی وجہ سے بھارتی کمپنیوں کے آرڈر ختم ہوتے جا رہے ہیں اور بیشتر ممالک بھارت سے دیگر مصنوعات کی درآمد کرنے پر بھی نظر ثانی کر رہے ہیں۔ سیکڑوں بچوں کی اموات کے بعد امریکہ، متحدہ عرب امارات، گیمبیا اور ازبکستان سمیت مختلف ممالک میں بھارت کی دوا ساز کمپنیوں کی تیار کردہ جعلی ادویات کے خلاف غم و غصہ پایا جا رہا ہے ۔ واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ سال دسمبر میں غیر معیاری بھارتی ادویات پر گلوبل الرٹ بھی جاری کیا تھا۔
بھارت کی تیار کردہ جعلی ادویات کیخلاف غم و غصہ
