Site icon Daily Pakistan

بیادِاقبالؒ

نومبراقبالؒڈے پر عام تعطےل کا فےصلہ ارباب اختےار کا اےک احسن اقدام ہے ۔کسی قوم مےںکوئی عظےم المرتبت اور ناقابل فراموش شخصےت صدےوں بعد جنم لےتی ہے اور خدا تعالیٰ اس سے کوئی اہم کام لےنا چاہتا ہے ان مےں اےک شخصےت علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی تھی جو 9نومبر1879ءکو سےالکوٹ مےں پےدا ہوئے۔اقبالؒتربےت کے لحاظ سے نہائت خوش قسمت تھے ان کے والدےن مذہبی رنگ مےں رنگے ہوئے اور اخلاقی پاکےزگی کے باعث معاشرے مےں قابل احترام سمجھے جاتے تھے ان کی مذہبےت اور روحانےت کے جو اثرات شروع مےں اس ہونہار بچہ پر پڑے وہ زندگی بھر قائم و دائم رہے باپ کی ےہ نصےحت کہ بےٹا جب تم قرآن پڑھو تو ےہ سمجھ کر کہ قرآن تم پر ہی اترا ہے ےعنی اﷲ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے اقبال ؒ کوقرآن مجےد کا سچا قدردان بنا دےا تھا اس لئے ان کے کلام مےں قرآنی تلمےحات و تعلےمات قدم قدم پر ملتی ہےں اقبال نہ کسی شاعر کا نام ہے نہ کسی فلاسفر کا اس سے مراد اےسا صاحب بصےرت مسلمان ہے جس نے صدےوں کے بعد اسلام کی ان اساسات کو جو ملبے کے نےچے دب چکی تھےں ان کو پھر سے اجاگر کےا اور حقےقت مےں وہ کسی اےک ملک کسی اےک قوم اور کسی اےک دور کی شخصےت اور ملکےت نہ تھے وہ دور حاضر کی انسانےت کی امانت تھے وہ حکےم تھے ان کی تشخےص درست تھی اور بےماری کے اسباب کو اچھی طرح سمجھتے تھے انہوں نے انسان کی مصےبتوں کا جو علاج تجوےز کےا تھا اس کی بنےاد بھی انسانےت اور ضمےر کی آواز تھی آپ کو اپنی زندگی مےں ہی رفعت و عظمت کا وہ بلند مقام حاصل ہوا جو صرف آپ کےلئے ہی مقدر تھا آپ کا کلام نہ صرف انگرےزی مےں بلکہ پورے ےورپ کی زبانوں مےں ترجمہ کےا گےا شاعر،مفکر اور رہبر کی حےثےت سے اقبال کو ہمارے ادب مےں اور زندگی مےں وہ مقام اور درجہ حاصل ہے جو آج تک مسلمانان ہند مےں کسی اور شاعر، مفکر ےا ادےب کو حاصل نہ ہو سکا اردو شاعری مےں صرف اقبالؒ کی شاعری اےسی ہے جو ہم کو ان علوم و مسائل ، تجربات و تحرےکات کی طرف بے اختےار متوجہ کرتی ہے جو اس وقت عالمگےر ہےں اور جن کی گرفت عام اور تعلےم ےافتہ ذہنوں پر ہے انہوں نے دنےا کے اکابر اصحاب فکروعمل کے خےالات ،تعلےمات اور جدو جہد کو اپنے کلام کے ذرےعے شاعرانہ لطف و نزاکت اور عالمانہ بصےرت و سنجےدگی سے پےش کےا شاعر کا بڑا کمال اور اس کےلئے سب سے مستند سند جواز ےہ ہے کہ وہ مشکل ، گہرے اور نازک تصورات و خےالات کو بہت جلد زےادہ سے زےادہ دلوں مےں اتار دےتی ہے اور ےہ وہ کارنامہ ہے جو شاعری کے علاوہ کسی اور فن کو نصےب نہےں اردو شاعری مےں ےہ بات صرف اقبال کے ہاں ملتی ہے ےہی نہےں بلکہ اقبال نے ان افکار و تحرےکات کی خوبےوں اور خامےوں کو اسلامی افکارو اعمال کی روشنی مےں اس طرح پےش کےا جس سے ہمارے خواص و عام دونوں گمراہ ہونے کی بجائے بہرہ مند ہوئے سےاسی لےڈر تو قوموں مےں پےدا ہوتے ہی رہتے ہےں لےکن ذہن وفکر کو اور صحےح راستے پر رہنمائی کرنے والا ہم مےں عرصہ سے پےدا نہےں ہوا تھا آج کل مادی ترقی کے ساتھ ذہنی ترقی کی جو رفتار ہے اس سے عہدہ برآ ہونا معمولی ذہن و دماغ کا کام نہےں تھا دنےا کی کوئی ترقی ےا ذہن و عمل کا کوئی کارنامہ اےسا نہ تھا جو مسلمانوں کو سراسےمہ ےا متحےر کر سکتا۔مسلمانوں پر اےسا وقت بھی آےا جہاں وہ منزلت سے گر کر مذلت مےں جا پڑے لےکن جماعت مےں شعور کی بےداری مدتوں پےدا نہ ہو سکی مغرب اور اس کے افکار سے مسلمان مسحور و مرعوب ہوتے رہے لےکن اقبالؒ نے مسلمانوں مےں ہمہ جہت بےداری پےدا کر دی زمانہ اقبالؒ سے لے کر آج تک کسی مقرر کی تقرےر اور کوئی بحث اےسی نہےں جس مےں اقبالؒ کے اشعار بطور دلےل نہ پےش کئے جاتے ہوں اور آخر کار کلام اقبالؒ سے مسائل مےں روشنی اور رہنمائی ملتی ہے ہمارے ادب مےں اتنا جامع حےثےت شاعر اب تک پےدا نہےں ہوا جو بےک وقت اپنی قوم مےں اپنے زمانے کا سب سے بڑا معلم و مفکر تھا اقبال ؒ چونکہ قرآن شناس تھا اسی وجہ سے اس نے زےادہ تر باتےں وہی کہی ہےں جو قرآن وحدےث مےں ہےں اقبالؒ کی شاعری شاعری کی معراج ہے اس کی شاعری نے جذبات کو فکر کا درجہ دےا مغربےت کے اثرات قبول کرنا تو در کنار جب ےہ مرد مسلم ےورپ کا سفر کرتا ہے تو بجائے مغربےت کا اثر لےنے اور قلب و دماغ کی کمزوری ظاہر کرنے ان کا اسلامی دماغ اور پختہ ہو جاتا ہے علامہ اقبالؒ اےک معلم ومفکر ہی نہ تھے بلکہ انسانی ضمےر کے محرک بھی تھے ان سے مغرب کے دانشوروں نے انسانےت،عزم اور خودداری کے سبق سےکھے۔وہ اسلام کو ہی زندگی کا مکمل نظام اور ضابطہ حےات قرار دےتے انہوں نے انسانوں کو اخوت کا درس دےا اور بتاےا کہ مسلمانوں کا نسل،وطن ےا فرقوں کے اختلافات کی بنا پر تقسےم ہو جانا اسلام کی جڑ کاٹ دےنے کے مترادف ہے اسلام وحدت امت کا نام ہے ۔
اےک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کےلئے
نےل کے ساحل سے لےکر تا بخاک کاشغر
وہ ساری امت محمدےہ کو اےک مسلمان سمجھتے وہ نئی نسل مےں مادہ پرستی،الحاد پرستی،بے ہمتی،اخلاقی پستی،بے راہ روی کی موجودگی کو بے چےنی سے دےکھتے اور اس کا سبب وہ مغربی تعلےم کو قرار دےتے۔اقبالؒ نے نوجوانوں کو ان کی پستی و کم ہمتی،خام افکار اور بے بسی کا احساس دلاےا ۔ اقبالؒ کہتے ہےں کہ زندگی کا دارومدار اےمان پر ہے اےمان،عمل،علم اور اخلاص اےمانی زندگی کے ارتقا کے مختلف پہلو ہےں جو اےک دوسرے سے مربوط ہےں اقبالؒ نے علم اور عمل کے رشتے کے ذرےعے قوم مےں ےقےن محکم پےدا کرنے کی کوشش کی۔ اس دانائے رازاور بطل حرےت کی ےاد منانا اور اس کے بتائے ہوئے راستہ کو اختےار کرنا وقت کی ضرورت بھی ہے،ہمارا فرض بھی اور سعادت مندی بھی ہے۔

Exit mobile version