Site icon Daily Pakistan

بیوروکریسی، جوکریسی، مندا کریسی

قائداعظم محمد علی جناح نے قیامِ پاکستان کے بعد سرکاری افسروں کو بڑے واضح الفاظ میں ہدایت دی تھی کہ وہ ریاست کے وفادار خادم رہیں، سیاست سے دور رہیں، اور عوام کے حقوق کی حفاظت کریں۔ انہوں نے کہا تھا: آپ کا کام نہ تو سیاست میں مداخلت ہے اور نہ ہی کسی حکومت کا تختہ الٹنا، آپ ریاست کے ملازم ہیں اور آپ کا فرض ریاست کے عوام کی خدمت ہے۔ مگر افسوس کہ ہم نے ان کی نصیحتوں کو پسِ پشت ڈال دیا ۔ پاکستان کی بیوروکریسی جو کبھی ریاست کی ریڑھ کی ہڈی کہلاتی تھی، آج کل ایک بوجھ بن چکی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں لیتا ہے، مراعات حاصل کرتا ہے، مگر خدمت کے بجائے طاقت اور اثرورسوخ کے نشے میں رہتا ہے۔ سیاستدان تو آتے جاتے رہتے ہیں، لیکن یہ طبقہ مستقل ہے، اور اس کی جڑیں نظام میں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ اس کے اثرات ہر حکومت پر یکساں رہتے ہیں۔میں نے اپنی زندگی میں کئی دور دیکھے ہیں۔ ایوب خان کا دور، یحییٰ خان کا، ضیا الحق کا مارشل لا، جمہوری ادوار اور پھر جنرل مشرف کا زمانہ ۔ ہر دور میں بیوروکریسی نے اپنے رنگ بدلے، مگر رویہ وہی رہا طاقت کا مظاہرہ، رعونت، اور عوام سے دوری۔ یہ ایک ایسی مخلوق ہے جو بادشاہ سلامت کے درباریوں کی طرح ہر دور کے حکمران کے رنگ میں رنگ جاتی ہے۔کچھ روز پہلے اسلام آباد کے سیکٹر D-12میں ایک واقعہ پیش آیا جس نے بیوروکریسی کی اصل تصویر پھر سے سامنے رکھ دی۔ ایک اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے چند گاڑیوں کے شیشے توڑ ڈالے، گاڑی مالکان کی تضحیک کی، اور پورے علاقے کو یہ پیغام دیا کہ ہم قانون ہیں اور ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ اس حرکت پر کسی نے سوال کیا تو جواب میں کہا گیا کہ یہ تو معمول کی کارروائی ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جسے میں جوکریسی کہتا ہوں یعنی قانون کا جوکروں کی طرح مذاق بنانا۔ بیوروکریسی کا اصل کام قانون کی عملداری قائم کرنا اور عوام کو سہولت دینا ہے، لیکن جب یہ طبقہ طاقت کے نشے میں اپنے فرائض کو ذاتی انا اور رعونت کے تحت استعمال کرتا ہے تو عوام کے دلوں میں ریاست کے اداروں کیلئے نفرت جنم لیتی ہے۔ یہ نفرت پھر پورے نظام کو کمزور کرتی ہے۔ پاکستان میں ”مندا کریسی”بھی اسی کہانی کا حصہ ہے۔ مندا کریسی وہ ذہنیت ہے جس میں افسران کو عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں، فائلوں میں الجھانا، چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے رشوت طلب کرنا، اور ہر کام کو ٹال مٹول سے انجام دینا ان کی عادت بن چکی ہے۔ سرکاری دفاتر میں جانے والا ہر شخص جانتا ہے کہ بغیر سفارش یا پیسے کے اس کا کام نہیں ہوگا۔ یہی رویہ عام آدمی کو مایوسی کی طرف دھکیل دیتا ہے۔قائداعظم نے جس امانت اور دیانت کی تلقین کی تھی، وہ کہیں کھو گئی ہے۔ بیوروکریسی اب ایک خدمت گار کے بجائے ایک حاکم طبقہ بن گئی ہے، اور یہ طبقہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ مثال کے طور پر، بڑے افسروں کے دفاتر میں جائیے، آپ کو پروٹوکول، گارڈز، لمبی چوڑی کرسیوں اور خوف کے ماحول میں استقبال ملے گا، جیسے آپ کسی عوامی دفتر میں نہیں بلکہ کسی جاگیردار کے ڈیرے پر آئے ہوں ۔ میں نے ذاتی طور پر ایسے افسروں کو بھی دیکھا ہے جو واقعی عوامی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں، جو رات گئے تک فائلوں پر کام کرتے ہیں، اور اپنے علاقے کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر یہ لوگ مٹھی بھر ہیں، اور اکثریت اس کے برعکس ہے۔ اصل تبدیلی اس وقت آئے گی جب بیوروکریسی کو احساس دلایا جائے کہ وہ عوام کی نوکر ہے، آقا نہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں احتساب کا نظام بھی اس طبقے کے سامنے بے بس ہے۔ سیاستدانوں کو تو عدالتوں میں گھسیٹا جاتا ہے، میڈیا پر ان کے کیسز چلائے جاتے ہیں، مگر کتنے بیوروکریٹس ہیں جنہیں ان کے اختیارات کے غلط استعمال پر سزائیں ملیں؟ شاید ہی کوئی۔ یہ طبقہ اپنے اندر ایک دوسرے کو بچانے کا ایسا جال بنا چکا ہے کہ قانون بھی اس کے قریب نہیں جا پاتا۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر ہم نے بیوروکریسی کو درست نہ کیا تو یہ نظام کبھی بہتر نہیں ہوگا۔ ہمیں قائداعظم کے بتائے ہوئے اصولوں کی طرف لوٹنا ہوگا ۔ بیوروکریسی کی اصلاح کیلئے چند بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے، سرکاری افسروں کی ترقی اور تبادلے میرٹ پر ہونے چاہئیں، نہ کہ سیاسی سفارش یا ذاتی تعلقات پر۔ دوسرے، عوامی شکایات کے ازالے کا نظام مضبوط کیا جائے اور اس پر سختی سے عمل ہو۔ تیسرے، طاقت کے غلط استعمال پر فوری اور عبرتناک سزائیں دی جائیں۔ چوتھے، عوام کے ساتھ رویہ بہتر بنانے کیلئے تربیتی پروگرام لازمی کیے جائیں ۔ بیوروکریسی کا مستقبل اسی وقت روشن ہوگا جب یہ عوام کے ساتھ کھڑی ہوگی، ان کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھے گی، اور اپنے عہدے کو خدمت کا ذریعہ بنائے گی، نہ کہ طاقت کا کھیل۔ یاد رکھنا چاہیے کہ عوام ریاست کا اصل ستون ہیں، اور بیوروکریسی ان ستونوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ اگر یہ ذمہ داری ایمانداری سے پوری نہ کی گئی تو پھر نہ بیوروکریسی بچے گی، نہ یہ نظام۔ آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ بیوروکریسی، جوکریسی اور مندا کریسی یہ تینوں چہرے ایک ہی سکے کے رخ ہیں۔ جب تک ہم اس سکے کو بدل نہیں دیتے، پاکستان کا مستقبل خطرے میں رہے گا۔ عوام کو بھی اپنی آواز بلند کرنی ہوگی، کیونکہ خاموشی اس طبقے کیلئے سب سے بڑی طاقت ہے۔ جب عوام سوال کریں گے، احتساب کا مطالبہ کریں گے، اور اپنے حق کیلئے ڈٹ جائیں گے، تب جا کے یہ نظام بدلے گا ۔ قائداعظم نے کہا تھا: پاکستان آپ کی محنت، قربانی اور دیانت کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ پیغام صرف سیاستدانوں کے لیے نہیں، بلکہ ہر اس شخص کے لیے ہے جو ریاستی مشینری کا حصہ ہے۔ اگر بیوروکریسی نے اس پیغام کو اپنا لیا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان واقعی ایک فلاحی ریاست بنے گا۔

Exit mobile version