Site icon Daily Pakistan

بی جے پی سب سے زیادہ بدعنوان جماعت

امریکہ نے بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے نفاذ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذہبی آزادی کا احترام، قومیت کے لیے برابری کا سلوک بنیادی جمہوری اصول ہے۔ مذہبی آزادی کا احترام، قومیت کے لیے برابری کا سلوک بنیادی جمہوری اصول ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ امریکا میں بھارت کے شہریت ترمیمی ایکٹ کے نوٹیفیکشن پر تشویش ہے ہم اس ایکٹ کی قریب سے نگرانی کررہے ہیں کہ اسے کیسے نافذ کیا جائے گا۔مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کو نافذ کرنے کے لیے قوانین متعارف کرائے تھے، جس کے مطابق مرکزی حکومت 31 دسمبر 2014 سے قبل بنگلا دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت ہجرت کرنے والے ہندوو¿ں، پارسیوں، سکھوں، بدھ مت اور جین مت کے پیروکاروں اور مسیحیوں کو شہریت دے سکتی ہے۔بھارت کی حکومت کی جانب سے شہریت کے ترمیمی قانون ’سی اے اے‘ کے نفاذ کے اعلان کے بعد جہاں ملک کے بعض علاقوں میں احتجاج ہو رہا ہے وہیں امریکہ، اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان نے بھی اظہار تشویش کیا ہے اور اسے امتیازی قانون قرار دیا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ سی اے اے کا نفاذ مساوات اور مذہبی عدم امتیاز کی آئینی اقدار کے لیے ایک دھچکا ہے۔کیرالہ، مغربی بنگال اور تمل ناڈو کے وزرائے اعلیٰ نے اپنی ریاستوں میں اسے نافذ نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔کیرالہ کے وزیرِ اعلیٰ پنرائی وجئین نے ایک بیان میں کہا کہ انتخابات سے قبل سی اے اے کے نفاذ کا اعلان ملک میں گڑبڑ کرانے کے لیے ہے۔ اس سے عوام میں پھوٹ پڑے گی۔ فرقہ وارانہ جذبات بھڑکیں گے اور آئین کے بنیادی اصولوں کو نقصان پہنچے گا۔مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ ممتا بنرجی اور تمل ناڈو کے وزیرِ اعلیٰ ایم کے اسٹالن کے علاوہ دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجری وال نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ممتا بنرجی اور ایم کے اسٹالن نے اپنی ریاستوں میں اس کے عدم نفاذ کا اعلان کیا ہے۔اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے ایک ترجمان نے کہا "جیسا کہ ہم نے 2019 میں کہا تھا کہ سی اے اے بنیادی طور پر امتیازی قانون ہے اور بھارت پر جو بین الاقوامی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کی خلاف ورزی ہے۔”مذکورہ قانون کے خلاف 2019 میں بدترین احتجاج ہوا تھا اور مذہبی فسادات برپا ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں درجنوں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا تھا اور اسی وجہ سے اس قانون پر عمل درآمد میں تاخیر کردی گئی تھی۔متنازع قانون کے نفاذ کے خلاف بھارت میں مظاہرے شروع ہوئے تھے، مظاہرین نے مودی حکومت کے خلاف نعرے بھی لگائے تھے۔ مذہبی آزادی کا احترام اور قانون کے تحت تمام برادریوں کے ساتھ مساوی سلوک جمہوری اصولوں کی بنیاد ہے۔ کوئی بھی قانون بلا امتیاز مذہب سب کے لیے ہونا چاہیے۔ سی اے اے کا نفاذ مساوات اور مذہبی عدم امتیاز کی آئینی اقدار کے لیے ایک دھچکا ہے اور انسانی حقوق کے تعلق سے بھارت کی عالمی ذمہ داریوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سی اے اے ایک متعصبانہ قانون ہے جو مذہب کی بنیاد پر امتیاز کا جواز فراہم کرتا ہے اور اسے کبھی بھی نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔اس کا نفاذ بھارتی حکومت کی جانب سے ملک بھر کے عوام، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ کے احتجاج اور مخالفت کو نظر انداز کرنا ظاہر کرتا ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ قانون مسلم برادری کو ٹارگیٹ کرنے کے لیے لایا گیا ہے، کیونکہ دوسروں کو تو اس کے تحت کافی امور میں استثنی حاصل ہے۔ وفاقی سطح پر کئی ایسے قوانین پہلے سے موجود ہیں، جن کے تحت شرعیہ ایکٹ کو تحفظ حاصل ہے، تو سوال یہ ہے کہ مسلم پرسنل لاءکے جو قوانین ہیں ان کو ریاست کیسے ختم کر سکتی ہے۔ریاست مرکزی قوانین کی مخالفت کرنے یا اسے میں ترمیم کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ وراثت کے سلسلے میں بھی مسلمانوں کے پاس ایک مکمل قانون ہے اور وہ بھی وفاقی قانون کے تحت محفوظ ہے، تو اس میں ترمیم کا حق ریاست کو کیسے حاصل ہے۔جنسوں کے درمیان وراثت کے حقوق کی برابری، جو کہ اسلامی قانون کے ان اصولوں سے متصادم ہے، جو قرآن میں موجود ہیں۔ہندو غیر منقسم خاندان (ان ڈیوائڈیڈ ہندو فیلمی ایکٹ) کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ کیوں؟ اگر آپ جانشینی اور وراثت کے لیے یکساں قانون چاہتے ہیں تو ہندوو¿ں کو اس سے باہر کیوں رکھا گیا ہے؟ کیا کوئی قانون اس صورت میں بھی یکساں ہو سکتا ہے، جب ریاست کی اکثریت پر وہ لاگو نہ ہوتا ہو؟ اور بھی کئی آئینی اور قانونی مسائل ہیں اور قبائلیوں کو اس سے کیوں الگ رکھا گیا؟ اگر ایک کمیونٹی کو مستثنیٰ حاصل ہے، تو کیا یہ یکساں ہو سکتا ہے؟بھارتی آئین کے معمار ڈاکٹر امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر نے بھی اس پر تنقید کی اور کہا کہ "پارلیمنٹ یونیفارم سول کوڈ کو شہریوں پر "مسلط” نہیں کر سکتی کیونکہ آئین ہر شخص کو مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے۔ کامن سول کوڈ پر جاری بحث سے یہ واضح ہے کہ ایک بار پھر یہ مسئلہ وسیع تر سماجی تناو¿ اور سیاسی ایجنڈوں کے لیے ایک فلیش پوائنٹ بن سکتا ہے۔ مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ ملک کی فرقہ پرست طاقتیں نت نئے جذباتی اور مذہبی مسائل کھڑے کر کے ملک کی اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کو، مسلسل خوف اور انتشار میں مبتلا رکھنا چاہتی ہیں۔

Exit mobile version