Site icon Daily Pakistan

بے حسی کادور

آجکل بے حسی کا دور ہے کوئی بھی کسی سے مخلص نہیں ہر شخص اپنی ذات تک محدرد رہنا چاہتا ہے ہر طرح کا فائدہ اس کی ذات تک گھومنا چاہیے بھائی بھائی سے دور ہے بہنوں سے فاصلے ہیں رشتے داریاں مانند پڑ چکی ہیں میل ملاپ بھی اس جگہ ہے جہاں فائدے ہوں انسان انسان سے دور ہوتا جا رہا ہے ہم کبھی سوچتے ہی نہیں انسانی تخلیق کا مقصد کیا ہے عبادت کرنے والے فرشتے تو اللہ کی بارگاہ میں موجود تھے کروڑہا فرشتے ہر وقت عبادت میں مصروف ہیں نہ انہوں نے کھانا ہے نہ پینا نہ بحث نہ جھگڑا نہ ضروریات صرف اور صرف ہر ساعت عبادت فرشتے عابد ہیں پھر کیوں اللہ نے انسان کو تخلیق کیا۔ مقصد تخلیق کیا ہے غور کریں تو معلوم ہوگا کہ انسان کو انسان کے قریب رکھا گیا ہے بلکہ یوں کہیے کہ انسان کو بنایا ہی انسان کے لیے ہے مثلاً آنکھیں آپ کی چہرہ کسی اور کا دیکھنا ہے مناظر اللہ کے دیکھنے ہیں یعنی ہمارا ہونا کسی اور کے ہونے میں مشروط ہے کان آپ کا ہے آواز اور بات کسی دوسرے کی ہے آواز کسی اور کی ہو تو کان کا مقصد کھلتا ہے زبان کسی دوسرے انسان تک بات پہنچاتی ہے تو سننے والا دوسرا انسان ہونا چاہیے آنکھ کا تعلق کسی دوسرے چہرے سے ہے کسی دوسری چیز کو دیکھنا ہی آنکھ کا مقصد پورا کرتا ہے بیمار انسان ہوگا تو دوسرا انسان اسکی تیمارداری کرتا ہے علاج انسان ہی بحثیت ڈاکٹر کرتا ہے زندگی کا ہر اک شعبہ دوسرے انسانوں سے جڑا ہوا ہے انسان اکیلا کچھ نہیں شادی انسان کی انسان کی دوسری جنس سے ہوتی ہے موت انسان کی ہوتی ہے تو تجہیز و تکفین کرنے والے دوسرے انسان ہی ہیں انسان ہر جگہ انسان سے قریب ہی ہے تنہائی میں زندگی مکمل نہیں ہوتی نہ ہی گزرتی ہے دل انسان کی محبت سے لبریز ہوتا ہے دماغ انسان کے بارے میں سوچتا ہے فوت ہو جائیں تو جنازہ جنات نہیں بلکہ انسان ہی اٹھاتے ہیں چارپائی ، چار بھائی ہی اٹھاتے ہیں انسان ہی انسان کے ساتھ ہر شعبے میں جڑا ہوا ہے عبادت کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو نماز میں بھی سارا ذکر انسان کا ہے الحمد پڑھتے ہیں تو اللہ کی تعریف کے بعد انسان کا ذکر انعام والے لوگوں کا راستہ اللہ کا راستہ انسانوں کا راستہ ا نعمت علیھم والے بندے تلاش کریں یہ مخصوص لوگ کون ہیں جن کے رستے پر چل کر اللہ سے قربت ملتی ہے وہ لوگ نہیں جن پر ان کا غضب ہوا پھر التحیات پڑھیں تو نماز میں اللہ کے ذکر کے ساتھ حضور کا ذکر ہو رہا ہے کامل انسان کا ذکر پھر عباد صالحین کا ذکر نیک بندے شامل ہو گئے درود شریف پڑھیں آل محمد یہ بھی انسان حضرت ابراہیم کا ذکر انکی اولاد کا ذکر انسانوں کا ذکر ہو گیا پھر رب جعلنی پر غور کریں اس میں آپ اور آپکی ذریت اولاد سارے شامل ہو گئے وقت کے ساتھ ذریت بڑھتی چلی گئی غورکریںعبادت اللہ کی اس میں ذکر انسانوں کا ہو رہا ہے جو شخص مخلص ہوگا وہی بہتر انسان ہوگا اسکی زندگی کا انحصار اس جیسے دوسرے انسانوں سے ہے اس طرح معاشرہ معرض وجود میں آیا وہی معاشرہ کامیاب ہے جس میں انسانوں کی جان مال عزت سب کا تحفظ ہو اور اسکی زندگی دوسرے انسانوں کے کام آئے اگر خدا نخواستہ کوئی انسان یہ کہے کہ اس دنیا میں مجھے کوئی انسان پسند ہی نہیں تو یہ جہنم کی راہ کا مسافر ہو سکتا ہے اللہ کی تخلیق انسان اس کا مقصد جو کہ اشرف المخلوقات ہے یہ کہ ہر انسان دوسرے انسان کے کام آتا ہے کسی کو کسی بھی شکل میں نقصان نہ پہنچائے زبان اور عمل سے دوسروں کا خیال رکھنا فرض اولین ہے مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ فرائض کی ادائیگی میں انسانوں سے دور ہو گئے انسان کا خیال ثانوی حیثیت اختیار کر گیا نماز کے دم سے ظالم انسان نے بھی اپنے آپ کو مطمئن کیا ہوا ہے لیکن اللہ کا مقصد ظلم نہیں مجبور کی مدد کرنا فرض ہے۔ اللہ کے خزانے چند انسانوں کی میراث نہیں کہ اڑھائی فیصد زکو دیکر وہ طاقت کے ذریعے ذرائع پر قبضہ کرلے انسان کا تعلق اپنے ہی جیسے انسانوں سے محبت کی بنیاد پر ہے دوسروں کی مدد کرنا ضرورت مندوں کا خیال رکھنا جان و مال اور عزت کا تحفظ خواہ کوئی امیر ہو یا غریب سب کا حق ہے مسلمانوں کے معاشرے میں سب برابری کے حقوق کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اللہ تعالی نے اب پیغمبروں کے بھیجنے کا سلسلہ تو بند کر دیا ہے حضور کے بعد اب کوئی پیغمبر نہیں آئے گا لیکن ولی بزرگان دین جو اللہ کی معرفت جانتے ہیں اور اللہ کے قریب ہیں ان کے آنے کا سلسلہ جاری ہے اور ہر دور میں ایسے بزرگ آتے ہیں جو اللہ اور اسکے رسول کے بارے میں بیان فرماتے ہیں انسان کو انسانوں کے قریب کرتے ہیں ان میں نفرت کینہ بغض عناد جیسی سوچ نکال کر محبت پیار اور احترام اور ضرورت میں ایک دوسرے کے کام آنے کی فضا پیدا کرتے ہیں اصل میں تخلیق انسان کا مقصد ہی معاشرتی زندگی کو ایک دوسرے کے سہارے چلانے کی کیفیات کو مضبوط کرنا ہے اللہ تعالیٰ انسانوں کی عبادت کا محتاج نہیں اس دنیا میں انسان کے آنے کا مقصد عبادت کے ساتھ ساتھ دوسرے انسانوں کے ساتھ جائز احتیاجات کو پورا کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے انسان کو انسان کے قریب رکھا گیا ہے زندگی وابستگی کا نام ہے تمام وابستگیوں کو اسی زندگی میں پہچاننے کا نام ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں سے خونی رشتوں اور تعلق داروں سے فرار کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے دردِ دل کے واسطے انسان کو پیدا کیا گیا ہے ورنہ عبادت تو فرشتے ہر لمحہ کر رہے ہیں یہ مبارک مہینہ اس بات کی تربیت فراہم کرتا ہے کہ نہ صرف سحری افطاری چند لوگ مل کر نہ کریں بلکہ اللہ کے گھر میں پانچ وقت حاضری دوسرے انسانوں کے ساتھ ملکر کی جائے نماز تراویح میں قرآن پاک سنانے والا بھی انسان ہی ہوتا ہے تو سننے والے بھی انسان ہی ہوتے ہیں قرآن پڑھنے کی آواز بھی ہماری سماعتوں میں انسان ہی کی جاتی ہے بغیر انسانوں کے معاشرہ نہیں بنتا اس پاک ماہ میں لوٹ مار اور جرائم کو پیشہ بنا کر زندگی گزارنے والے بھی انسان ہی ہوتے ہیں بازار جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر شے کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے کھانے پینے کی کوئی بھی چیز عام انسان کی قوت خرید سے متجاوز ہے من مانی قیمت وصول کرنے والے بھی انسان اور اشیائے ضرورت کی خرید و فروخت میں منہ مانگی قیمتیں دینے والا بھی مجبور انسان ہے ایسے لوگوں کو یہ خیال بالکل نہیں آتا کہ ہماری لالچ حرص اور تمنا کی بھینٹ عام انسان چڑھ رہا ہے یہ لوگ باشرح بھی ہیں نمازی بھی تراویح میں بھی شمولیت ہوتی ہے لیکن ایک کے دس وصول کرنےوالے بھی اکثر یہی لوگ ہوتے ہیں قاتل اور مقتول دونوں انسان ہوتے ہیں ظالم اور مظلوم بھی انسانوں کی صورتیں ہیں سب سے مشکل کام انسان بننا ہے انسانی زندگی حقیقت میں ایسی ہے کہ اس میں کچھ کوتاہیاں ہیں کچھ کمزوریاں کچھ خواہشیں پوری ہو جاتی ہیں کچھ ناتمام رہ جاتی ہیں آنسو ہیں مسکراہٹیں ہیںکبھی بات پوری ہو جاتی اور کبھی ادھوری رہ جاتی ہے کبھی کام رہ گیا کبھی انجام کبھی نماز رہ گئی کبھی انجام دولت بھی ہو اور غریبی بھی کچھ صحت اور کچھ بیماری بھی ایسی رونقیں لگی رہتی ہیں تو زندگی کہلاتی ہے مسجد نے اندر جس طرح انسان کا وقت گزرتا ہے اسی طرح مسجد کے باہر کی دنیا میں بھی زندگی اسی طرح بے خطر اور تعاون سے گزرے اللہ نے انسانوں کو انسانوں میں بھیجا تاکہ ایک دوسرے کے کام آئیں ایک دوسرے پر رحم کریں اور کافروں کےلئے سخت ہوں رحم کا مطلب ہے بیمار کو دیکھنا غریب کا خیال رکھنا گھریلو زندگی میں شفقت اور درگزر کا رویہ معاشرے میں رعایت معافی اور دوسرے کا خیال رکھنا پڑتا ہے قانون کی حکمرانی تاکہ زندگی گزارنے میں کوئی دقت نہ ہو اپنے دور کے انسانوں کو قبول کرنے کی صلاحیت انکا خیال کرنا نماز ادا کرنا اپنی زندگی پرسکون گزارنے کے ساتھ دوسروں کی زندگی بھی برابری کی حیثیت میں اچھے ماحول میں گزرے تو پھر انسان کامیاب رستوں پر چلتے ہوئے تخلیق کا مقصد پورا کرتا ہے نفرت کرنے والے انسان کی عبادت بھی قبول نہیں ہوتی ایمانداری سے ایک دوسرے کے ساتھ محلے کے اندر نیکی پھیلانے کے خیال سے اللہ کے پاک کلام قرآن کی وضاحت اور روشنی میں زندگی گزرے تو معاشرہ پاکیزہ معاشرہ کہلاتا ہے ہمارا معاشرہ اس وقت تنزلی کے نچلے درجے پر ہے لوٹ مار کا بازار گرم ہے غریب زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہا اسکی زہنی کیفیت مایوسیوں کا شکار ہے انسان شیطان کا روپ دھار چکا ہے مقصد حیات وہ نہیں جو دیکھنے کو مل رہا ہے بلکہ درد دل کے ساتھ اپنے بھائیوں کی تکالیف کو دور کرنے کا نام انسانیت ہے جہاں حساس انسانوں کے تعاون سے مثبت سوچ کا ماحول ہو اس انسانیت کی ضرورت ہے انسان اللہ کا نائب ہے اسے مالک کی مرضی اور بتائے ہوئے اصولوں پر چلنا ہوگا ورنہ جنگل کے معاشرے میں اور انسانوں کے معاشرے میں کیا فرق ہے۔

Exit mobile version