تالا اکثر ضروری اور قابل استعمال اشےاءکا لازمی جزو ہے ۔اس کی اہمےت سے تو کوئی صاحب فکر انکار نہےں کر سکتا۔ےہ حقےقت بھی قارئےن کے علم مےں ہے کہ اگر گھر مےں خدا کا دےا سب کچھ ہو لےکن گھر والے موجود نہ ہوں تو اےک چےز ضرور موجود ہوتی ہے وہ ےہی تالا ہے ۔اگر تالا موجود نہ ہو تو گھر مےں چور ضرور ہوتا ہے اور پھر وہ دوران کاروائی کوئی زنگ آلود اور پرانا تالا بھی نہےں چھوڑتا جو وہ اپنے بےگ مےں نہ ڈالے اور اگر کوئی ڈاکو گھر مےں داخل ہو جائےں تو وہ اپنی دہاڑی شروع کرنے سے پہلے صرف چابےاں مانگتے ہےں ۔اس وقت وہ گھڑی کی چابی کی طرف دھےان نہےں دےتے اور چابےاں نہ ملنے کی صورت مےںتشدد کا آغاز کر دےتے ہےں ۔سنا ہے عرب رےاستوں مےں دکاندار اپنی دکانوں کی بغےر تالابندی کئے نکل جاتے ہےں اور انہےں چوری چکاری کا کوئی ڈر نہےں ہوتا لےکن ہمارے تھانوں مےں پولےس ملازمےن کے سوٹ کےسوں پر تےن تےن پھولوں والے تالے لگے ملتے ہےں ےعنی وہ آپس مےں بھی اعتباروبھروسہ نہےں کرتے وہاں پر موجود چوروں کی فائلےں بھی تالوں مےں ہوتی ہےں اور چورچابی کی طرح باہر ہوتے ہےں ۔تالا ”نظر “کا رشتہ دار ہے ۔اگر ےہ کسی کے گھر کے باہر مستقل لگا رہے تو سمجھ لےجئے کہ گھر والوں کو نظر لگ چکی ہے ۔تالے کےلئے ےہ ضروری نہےں کہ ےہ کسی دھات کا بنا ہو ۔ےہ بٹن ،ازار بند پاس ورڈ اور سلائی کی صورت مےں بھی وقوع پذےر ہو سکتا ہے ۔بعض اوقات ےہ نظر نہےں آتا لےکن لگا ہوتا ہے ۔اگر اےسی صورت حال کسی حکمران مےں پےدا ہو جائے تو پھر آفات کے تالے کھل جاتے ہےں جسے خدا نے ڈھےل دے کر بند کےا ہوتا ہے ۔جےسے ےہ کسی کے کانوں ،آنکھوں اور زبان پر لگا ہوتا ہے ۔راقم اور مےرا اےک عزےز گھر پہنچے ،مےرا عزےز کنجی کے ساتھ تالا کھولنے کی کوشش کرنے لگا ۔کافی دےر تک تالے سے زور آزمائی کرنے کے باوجود بھی تالا کھل نہےں رہا تھا ۔اس نے کہا ےقےنا ےہ تالے کی خرابی ہے جس کی وجہ سے ےہ نہےں کھل رہا ۔اب اس کا سارا غصہ تالے کے ناقص ہونے پر ہی مرکوز تھا اور وہ تالا کےا اسے بنانے والے اور اس صنعت کے خلاف ہی اپنا پورا زور بےان صرف کر رہا تھا کہ ہمارے صنعت کار ہی ناقص اشےاءبنوا کر بازار مےں فروخت کر دےتے ہےں ان کو کارےگر بھی دو نمبر ملتے ہےں وہ ےہ نہےں سوچتے گھر پہنچ کر ےہ چےز گاہک کےلئے کار آمد بھی ہو گی ےا پھر کوڑے کباڑ کی ہی زےنت بنے گی ۔وہ ےہی سوچ رہا تھا اور پتھر اور اےنٹ کی تلاش مےں تھا کہ اسے توڑا جا سکے ۔اسی اثناءمےں اس کا چھوٹا بھائی پہنچ گےا اور بھےا سے کہا کہ مےں نے ہی تالے کو صبح بدلا لےکن چابی گچھے مےں ڈالنا بھول گےا اس تالے کی کنجی دوسری ہے اس نے دوسری کنجی نکالی اور تالا جھٹ سے کھل گےا ۔ےہی حال ہے شائدموجودہ زمانے نے زندگی کے دروازوں کے تالے بدل دےے ہےں مگر ہمارا حال ےہ ہے کہ پرانی چابےوں کے گچھے لئے ان سے ہی تالے کھولنے کی زور آزمائی کر رہے ہےں جب پرانی کنجےوں سے نئے تالے نہےں کھلتے تو کبھی تالا بنانے والے اور کبھی سارے ماحول پر خفا ہوتے اور غصہ اور ماےوسی کا شکار ہو جاتے ہےں ۔ہم نے نئے زمانے کو اپنے دل و دماغ مےں جگہ نہےں دی اور اس کے تقاضے پورے نہےں کئے اس لئے نئے زمانے نے ہمےں اپنے اندر جگہ نہےں دی ۔بدلے ہوئے زمانے مےں ہم پسماندہ رہ گئے ۔قومی زندگی کی تعمےر نو اور درکار تبدےلی کےلئے کسی وقتی ابال کی ضرورت نہےں نہ ہی عوام کو اپےل کرنے والے نعرے لگا کر جلسوں کی دھوم دھام ،مجمع کو جمع کرنے اور صرف تقارےر سے مطلوبہ تبدےلی آسکتی ہے ۔ان نعروں سے صرف قائدےن ہی مفاد حاصل کر سکتے ہےں اور وقتی طور پر اپنی قےادت جما لےتے ہےں ےہ صرف سستی لےڈری کے حصول کا اےک کامےاب نسخہ ہے۔ےہ کام تو طوےل منصوہ بندی چاہتا ہے اور مختصر ےا قلےل مدت مےں اسے حاصل نہےں کےا جا سکتا ۔مستقل ارادے ےا استقلال سے ہی منزل کا حصول ممکن ہوتا ہے۔معزز قارئےن بات تالے سے شروع کی تھی ،کدھر چلی گئی ۔آج کل جتنے جدےد سے جدےد تالے مارکےٹ مےں بکنے آرہے ہےں اتنے ہی چور ڈےجےٹل ہوتے جا رہے ہےں ۔لڑکی والے بھی لڑکے والوں کو جہےز مےں تالا نہےں دےتے ہےں کےونکہ اےک وقت مےں اےک ہی مونث دےنا چاہتے ہےں چنانچہ تالا صرف اس وقت ہی کھل پاتا ہے جب اس کی اصل شرےک حےات اس کی پےٹھ مےں گھونپ دی جائے پھر وہ کھل کھلا کر کھلتا ہے۔تالا مصرےوں کی اےجاد ہے اور اس دور مےں درےافت ہونے والے تالے زےادہ تر لکڑےوں کے بنے ہوئے ہےں ۔امرےکہ کے لاک ماسٹر ”ےل“ نے جو تالا انےسوےں صدی مےں اےجاد کےا اس مےں کوئی سوراخ نہےں تھا کےونکہ اس دور مےں سوراخ کے راستے دھماکہ خےز مواد ڈال کر اس کی ہولی منائی جاتی تھی اور تالا دھماکے کی نذر ہو جاتا تھا ۔آجکل ےہ بات حواس باختہ لوگوں کےلئے باعث اطمےنان ہے کہ تالا چابی سے بھاری ہوتا ہے ورنہ پروفےسر حضرات کی جےبوں سے چابی کی بجائے تالے ملتے اور چابےاں ؟سائنس نے ہر جدےد چےز کے ساتھ تالے کا اجالا کر دےا ہے اور تقرےباً ہر چےز Deviceکے ماتھے پر تالے کا ٹےکہ لگا دےا ہے تا کہ چور کو ہر چوری سے قبل ذرا غور فرمانا پڑے لےکن چور اپنی قابلےت کی وجہ سے اپنے سکور مےں اضافہ جاری رکھتا ہے اور تالے کو تر نوالہ سمجھ کر نگل لےتا ہے ۔لےکن سائنس دانوں نے کوئی اےسا جوتا اےجاد نہےں کےا جس پر چور سوئچ لگا ہو جوتا چور کے ہاتھ کے لمس پر ہی شور مچانے لگ جائے لےکن کےا کےا جائے کہ ان چوروں کے پاس تو ہر تالے کی گولڈن Keyہوتی ہے کےونکہ ےہ سکول ماسٹر تو ہوتے نہےں ان کے پےچھے کوئی نہ کوئی ماسٹر مائنڈ ضرور ہوتا ہے جس سے وہ ہمارے سٹےٹ بےنک کے تالے بےک ڈور سے کھول لےتے ہےں ۔ےہ رےڑھی اور گول گھپے لگانے والوں کے بےنک اکاﺅنٹ مےں کروڑوں روپے کا بےنک بےلنس جمع ہونا اسی کا شاخسانہ ہے اور اس بےنک بےلنس کے استعمال کی چابی ہمےشہ کسی دوسرے کے پاس ہی ہوتی ہے۔دور جدےد مےں آج کا انسان مادےت پرستی مےں ڈوب کر اخلاقی طور پر دےوالےہ ہو چکا ہے ۔آئے روز کے بڑھتے ہوئے فاصلے انسانوں کو انسانوں سے دور اور حےوانوں کی صف مےں کامےابی کی پہلی سےڑھی عنائت کئے ہوئے ہےں ۔ہماری دانست پر پڑا ہوا زنگ آلود تالا جس کی چابی آج بد قسمتی سے مغرب کے ہاتھوں مےں ہے ہمارا منہ چڑا رہا ہے ۔ تالے کی زبان نہےں لےکن الفاظ کی ادائےگی ےوں کرنا چاہتا ہے کہ مجھے مقفل کرنے والے ، مجھے چوکےداری کی خاطر لٹکانے والے ۔مال و اسباب کی حفاظت کی ذمہ داری سونپنے والے ، دنےا پر آخری سلطنت کا نعرہ لگانے والے کےا مےری حفاظت بھی نہ کر سکے ۔چابی ورکروں کے پاس ہے ۔مجھے ان پر افسوس اور خود پر ترس آتا ہے کہ چور اپنے مال کی خاطر اپنے گھر کو تالا لگا کر رکھتا ہے لےکن اپنی ذہانت و قابلےت سے دوسروں کے قفل کھول ڈالتا ہے ۔مےرے ےہ معززےن مجھے مقفل کر کے بھول چکے ہےں کہ اندر تمہارے کون کون سا اثاثہ چھپا ہو اہے ۔ فےصلہ آپ کر لےں ےہ معزز اچھے ےا وہ چور۔وہ لوگ جو علم کی دولت سے مالا مال ہوتے ہےں انہےں اپنے مال کی نقب زنی کا کوئی خوف نہےں ہوتا اور نہ ہی کوئی سوےڈش اکاﺅنٹ ہولڈر ان کی اس دولت کا صفاےا کر سکتا ہے ۔ےہ چابی ،ےہ چور اور چکور تالوں کی فکر مندی صرف مالداروں کو ہوتی ہے ۔آج ہمارے نوجوانوں کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ محنت کر کے صرف علم کی دولت کے پےچھے بھاگےں ورنہ وہ تالوں اور چابےوں کے چکروں سے کبھی نہےں نکل سکےں گے ۔آپ نے محسوس کےا ہو گا کہ چابےوں کے گچھے مےں جو چابی زےادہ استعمال ہوتی ہے صرف وہی چمکتی ہے لےکن ےہ بھی ےاد رکھےں گھڑا بھی وہی ٹوٹتا ہے جو پانی زےادہ ٹھنڈا کرتا ہے ۔بہر حال علم کی دولت حاصل کرنے کےلئے دل چھوٹا نہ کرےں ،ماےوسی اےک بڑا گناہ ہے ۔علم کی دولت ہوگی تو پھر دوسری دولت خود بخود قدموں مےں گرے گی ۔لہٰذا مےرے نوجوانو لاکروں کے چکر سے ذرا بچےں ۔کوالےفےکےشن کے ساتھ ساتھ اےجوکےشن بھی ضروری ہے ۔ دنےاوی تالے پر عدم اعتماد کر کے صرف خدا تعالیٰ پر بھروسہ کیجئے۔
تالا
