سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد حکومتی اتحاد نے بھی کھل کر اپنے موقف کی وضاحت کردی ہے اور جواباً کہا ہے کہ اگر تحریک انصاف نے اسمبلیوں سے استعفے دیئے تو پھر حکومت آئینی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے ان پر ضمنی انتخابات کرائے گی جبکہ مولانا فضل الرحمن نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر بیان دیا ہے کہ اسمبلیوں کی مدت میں ایک سال کی توسیع ہوسکتی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ نے تحریک طالبان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کرنے کے حوالے سے بھی بتایا ہے کہ پارلیمنٹ نے اداروں کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ ان کے ساتھ ایک بار پھر مذاکرات کا آغاز کرے تاکہ اس اہم مسئلے کو پر امن طریقے سے حل کیا جائے اور اس کا کوئی مناسب حل نکالا جائے ۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعے کی شدید مذمت کرتا ہوں، ٹی ٹی پی کا اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنا قابل افسوس ناک اور قابل مذمت ہے اور یہ ہمسایہ برادر ملک کےلئے بھی لمحہ فکر ہے، واقعہ تشویشناک ضرور ہے لیکن ہم دہشت گردوں پر قابو پالیں گے۔سیکیورٹی کے حوالے سے وزیراعظم کی سربراہی میں اجلاس میں خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی عدم شرکت قابل افسوس ہے، خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کو چاہیے کہ دہشت گردی میں ملوث عناصر کی سرکوبی کےلئے اقدامات کرے، وفاق صوبائی حکومتوں کی ہر طرح سے مدد اور معاونت فراہم کرے گا۔ ہماری مسلح افواج اور ادارے دہشت گردوں سے نمٹنے کےلئے تیار ہیں، صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ امن و امان کے قیام کےلئے سنجیدہ لائحہ عمل اختیار کریں۔ٹی ٹی پی کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ عسکری قیادت نے ان سے مذاکرات کے معاملے پر دو بار ارکان اسمبلی کو بریفنگ دی، پارلیمنٹ نے آئینی کی حدود میں رہتے ہوئے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی اجازت دی، مذاکرات میں عسکری قیادت کو انہیں اختیار دیا کہ اگر پرامن طور پر وہ واپس آنا چاہیں تو ان سے بات چیت کی جائے۔ جو لوگ امن چاہتے ہیں انہیں امن کا راستہ دیا جانا چاہیے اور یہی پارلیمنٹ میں طے ہوا تھا، باقی آپریشن تو ان کے خلاف روزانہ ہی ہو رہے ہیں اور مسلح افواج کے طاقت ور آپریشن ہورہے ہیں جس میں فوج جوان شہادتیں بھی پیش کررہے ہیں۔ان کاکہناتھا کہ عمران خان ملک کو عدم استحکام کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہا ہے، عمران خان نے توشہ خانے سے گھڑیاں چوری کیں اور باہر ملک میں فروخت کردیں، عمران خان نے کرپشن کی گھٹیا ترین روایت قائم کی، عمران خان کو 26 نومبر کو راولپنڈی میں تاریخی ناکامی ہوئی، اب پی ٹی آئی کی طرف سے 20 دسمبر کو اسمبلیاں توڑنے کی بات سامنے آئی ہے، بیس دن کی تاخیر کیوںکی جارہی ہے؟ اس شخص کی پالیسی صرف اور صرف ملک کو عدم استحکام کی طرف لے جانا ہے کیونکہ اسمبلیاں توڑنے کا عمل انتہائی غیر سیاسی ہے۔ اسمبلیاں تحلیل ہوئیں تو آئین پر عمل ہوگا، اگر ضمنی الیکشن موخر ہوسکتے ہیں عام انتخابات تک تو موخر ہوجائیں گے لیکن اگر 90روز میں ہونے ہیں تو ہوں گے اور ہم الیکشن لڑنے کیلئے تیار ہیں۔ حکومت ہر صورت مدت پوری کرے گی، اسمبلیاں توڑنے سے قبل قومی اسمبلی سے استعفے دے کر پارلیمنٹ لاجز خالی کریں، جو پی ٹی آئی کے لوگ سہولتیں لے رہے ہیں وہ بھی چھوڑیں۔نیزپاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انتخابات مقررہ وقت پر کرنے کے بجائے ایک سال آگے بھی جاسکتے ہیں۔ اسمبلیاں توڑنے کی بھڑکیں بہت سنی ہیں مگر ایساکچھ نہیں ہے، ملک دیوالیہ پن کے قریب تھا ہم اسے واپس لائیں گے، انتخابات وقت پر کرنے کے بجائے ایک سال آگے بھی جاسکتے ہیں، جتنی بھڑکیں انہوں نے ماری کیا ان پر عمل ہو رہا ہے؟، عمران خان ہماری نقالی کررہا ہے۔ آئین پاکستان ایک مقدس دستاویز ہے جسے میثاق ملی کی حیثیت حاصل ہے، آئین خود کہتا ہے کہ اس آئین کا بنیادی ڈھانچہ چار باتوں پر مشتمل ہے، ملک میں 1973 تک صدارتی نظام رائج تھا، ایوب خان کے دور حکومت میں ملک بھر میں تحریک اٹھی تھی، عمران خان کا ایجنڈا پورا نہیں ہونے دیں گے، عمران خان کب تک عوام کو دھوکہ دیتے رہیں گے، ہم نے یہاں بھی جلسے کئے عوام امڈ آئے ہیں۔ ملک کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی اجازت نہیں دینگے، ہر کسی کو چور چور کہنے کا بیانہ فیل ہوگیا ہے، پہلی دفعہ دفاعی اداروں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی، تخریب کی ذمہ دار جماعت کو ملک کی تعمیر میں نہیں رکھیں گے، اختلاف کا سب کو حق ہے سازش کا کسی کو حق نہیں۔تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل ملک کے امن وامان کو بہتر بنانے کے حوالے سے ایک بہتر عمل ثابت ہوگامگر ان کے ساتھ زیادہ نرمی کا برتاو¿ بھی بہتر نہیں کیونکہ ان کی وجہ سے سیکورٹی فورسز کا بہت نقصان ہوچکا ہے ۔اس کے علاوہ سیاسی معاملات کو حل کرنے کیلئے بھی اگر مذاکرات کی راہ نکال لی جائے تو یہ بھی ملک میں پھیلی بے چینی کے حل کیلئے مفید ثابت ہوگاکیونکہ اگر حکومت تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرسکتی ہے تو پھر تحریک انصاف کے ساتھ کیوں نہیں
اے این ایف کا دوسرا چہرہ قابل افسوس
ملک میں منشیات کے سدباب کیلئے جو ادارہ بنایا گیا ہے وہی اگر اس کے فروغ کا باعث بن جائے تو پھر اس کا حل کیسے کیا جاسکتا ہے ، گزشتہ روزنیو اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر تعینات اینٹی نارکوٹکس فورس کے اہلکار نے مسافر سے سامان لے جانے پر رشوت لی جس کی ویڈیو وائرل ہوگئی، اعلیٰ حکام نے خفیہ طریقے سے بنائی گئی ویڈیو کا نوٹس لیتے ہوئے افسران کو معطل کر کے تحقیقات کا حکم دے دیا۔بین الاقوامی ہوائی اڈے پر بیرون ملک جانے والے مسافر سے اینٹی نارکوٹکس فورس کے اہلکاروں کی چیکنگ کے بہانے مبینہ رشوت وصول کرنے کی ویڈیو منظرعام پر آئی۔ ویڈیو میں اہلکار ڈھٹائی سے مسافر سے غیر ملکی کرنسی لے رہا ہے اور دیگر ساتھی خاموشی سے ساتھ نبھاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔دستیاب ویڈیو میں اے این ایف کے اہلکار نہایت ڈھٹائی سے مسافر سے مال پانی کا مطالبہ کررہا تھا۔ اہلکار دھڑلے سے مسافر کو پیشکش کی کہ اچھا لے کر جانا ہے تو کوئی خدمت کرو۔اے این ایف اہلکار مسافر سے یہ بھی کہا کہ اچھا کتنے دوگے۔ جواب میں مسافر اے این ایف اہلکار کو غیرملکی کرنسی کے دو نوٹ دیتا ہے۔ ایک اہلکار سیٹ پر بیٹھے اور ایک قریب خاموشی سے کھڑا بھی دیکھا گیا۔اے این ایف حکام کے مطابق واقعے میں ملوث اے این ایف کے تینوں اہلکاروں کو معطل کردیا گیا اور انکوائری کے لیے اعلی سطح کی انکوائری کمیٹی قائم کردی۔منشیات پاکستانی نوجوانوں کیلئے زہر قاتل ہے اگر ادارے خود اس قسم کی سنگین حرکات میں ملوث ہوجائے تو ایسے اہلکاروں کو قرار واقعی کڑی اور سخت سزا دی جانے چاہیے تاکہ مستقبل میں کوئی ایسی حرکت کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے ۔
مہنگائی میں تشویشناک حد تک اضافہ،لمحہ فکریہ
ہر روز بڑھتی مہنگائی نے غریب عوام کا جینا حرام کر دیا،غریب کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل بنا دیا۔نومبر کے دوران مہنگائی کی شرح 23.8فیصد ریکارڈ کی گئی،وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی کے ماہانہ اور سالانہ اعداد و شمار جاری کردیئے ہیں، جس کے مطابق ماہانہ بنیاد پر پاکستان میں مہنگائی میں 0.76کا اضافہ ہوا، گزشتہ سال نومبر میں افراط زر کی شرح 11.5 فیصد تھی۔ دیہی علاقوں میں افراط زر کی شرح 27.2فیصد تک پہنچ گئی ہے اور شہروں میں یہ شرح 21.6فیصد ریکارڈ ہوئی،ادارہ شماریات کے مطابق ماہانہ بنیاد پر پیاز، ٹماٹر، خشک میوہ جات اور انڈے مہنگے ہوئے، اس کے علاوہ چینی، خشک دودھ، چائے کی پتی اور مچھلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا،وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ایک سال کے دوران دیہی علاقوں میں پیاز 286فیصد مہنگا ہوا اور شہری علاقوں میں پیازکی قیمت 285فیصد بڑھی،اعداد و شمار کے مطابق ایک سال میں دیہی علاقوں میں دال ماش 50.78فیصد اور شہری علاقوں میں 47.76فیصد مہنگی ہوئی، اس دوران دیہی علاقوں میں گندم 47.16فیصد اور شہری علاقوں میں 43.4فیصد مہنگی ہوئی۔اس وقت حکومت کی پہلی ذمہ داریوں میں یہ شامل وہ ملک سے بیروزگاری ، مہنگائی کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرے اور اسے کم سے کم سطح پر لائے ۔