صدیوں سے دستور ہے کہ طاقت جب رعونت اور تکبر میں بدل جائے تو مظلوم باہمی رنجشیں ختم کر کے اتحاد میں عافیت سمجھتے ہیں مگر افسوس کہ گزشتہ ستر سال سے پورا بلاد عرب اسرائیلی بربریت، وحشت اور رعونت کا شکار مگر مجال کہ عربوں میں یکجان ہونے یا اسکے مدمقابل عسکری قوت بننے کا خیال بھی آیا ہو۔ انہوں نے اب تک اپنے اپ کو امریکی چھتری اور اسرائیلی کاسہ لیسی میں محفوظ سمجھ رکھا تھا۔ عربوں نے ایک دو بار اسرائیل کو لگام ڈالنے کی کوشش کی مگر عزم، حوصلہ، جرات اور جدید جنگی ٹیکنالوجی سے عاری عربوں کو ایسی مار پڑی کہ انکے مزاحمت کے جذبے ماند پڑ گئے جس سے حزب اللہ اور پھر حماس نے جنم لیا۔ مگر کیا قدرتی وسائل اور دولت سے مالا مال مسلم ممالک کے لیے باعث شرم اور لمحہ فکریہ نہیں کہ دشمنوں میں گھری ناجائز ریاست کہ جسکے خلاف مضبوط عسکری تحریکیں بھی سرگرم، کے ہوتے ہوئے بھی اسرائیل نے دفاعی، طبی، معاشی، سائنسی، ابلاغی اور تحقیقی میدانوں میں حیرت انگیز ترقی کی۔ اسکے مقابلے میں عربوں نے اپنے وسائل کہاں صرف کئے، یہ باعث شرمندگی کہ جس کا خمیازہ اب وہ خوف اور ذلت کے ماحول میں رہنے کے طور پر بھگت رہے ہیں ۔ تمام تر چیلنجز کے باوجود شیطانی ریاست نے بزور طاقت نہ صرف دنیا سے اپنا وجود منوایا بلکہ کئی ریاستوں کے وجود کیلئے ایسا خطرہ کہ اقوام عالم کی سینکڑوں قرادایں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیلیں بھی آج تک اس کی جارحیت اور توسیع پسندانہ عزائم کو نہ روک پائیں۔ اسرائیلوں کی پاکستان دشمنی ضرب المثل کہ پاکستان کے خلاف نفرت ان کے نصاب اور ایمان کا حصہ۔ چونکہ اسرائیل کا عربوں کا پہ ہاتھ کھلا ہوا تھا سو اسی زعم اور ایران میں اپنے ایجنٹس کے نیٹ ورک کے بھروسہ پر اس نے ایران پر بھی حملہ کر دیا۔ گرچہ پہلے روز ایران کا نقصان ناقابل تلافی رہا مگر ان کے حوصلے ٹوٹے اور نہ قوم کا عزم متزلزل ہوا۔ پھر دوستوں کی معاونت نے اسے اسرائیل پر پلٹ کر وار کے ایسا قابل بنایا کہ اسرائیلی سراسیمہ ہو کر بنکرز میں پناہ اور ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔ ایران اور معا بعد قطر پر حملے اور امریکی مکاری اور دغابازی نے عربوں کے اندر احساس عدم تحفظ کو اجاگر کیا مگر اب بھی اکثر عرب امریکی و اسرائیلی مفادات کے برخلاف کسی دفاعی معاہدہ کی جرات نہیں کر پا رہے۔ سعودی عرب کی پہل نے اگرچہ دروازہ کھولا ہے مگر کیا پاکستان دیگر عرب ممالک کا دفاعی بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہے کہ اس کے ایک طرف ازلی دشمن بھارت تو دوسری سرحد اپنوں نے غیر محفوظ بنا رکھی ہے اور افغانستان تو بھارت سے بھی بڑھ کر ناقابل اعتماد پڑوسی ثابت ہو رہا ہے، اگرچہ سعودی عرب سے پہلا مگر محدود دفاعی معاہدہ 1982 میں اور پھر 1983میں ایک برگیڈ کی تعیناتی کی گئی حالیہ معاہدہ بھی گزشتہ کئی ماہ کی محنت اور خفیہ بات چیت کا نتیجہ مگر اس کی ٹائمنگ نے اسے زیادہ نمایاں اور دوست دشمن سبھی کے لیے حیرت انگیز بنا دیا۔ خوش آئند یہ کہ عشروں سے ایران سعودی چپقلش کا خاتمہ بھی امت کے ممکنہ اتحاد کا پیش خیمہ ثابت ہو رہا ہے۔ اسی لیے پاکستان کو بھی اب سعودی عرب کیساتھ دفاعی بندھن میں مشکل محسوس نہیں ہوئی کہ پاکستان کی مخلصانہ اور چین کے ذمہ دارانہ کردار نے دو برادر اسلامی ممالک کو نہ صرف ایک دوسرے کے قریب کیا بلکہ پائیدار تعلقات کی بنیاد بھی رکھی جو پورے عالم اسلام کے لیے خوش آئند۔ قابل اعتماد ذرائع کے مطابق قطر سربراہی اجلاس کے بعد ایرانی سپریم لیڈر کے معتمد خاص اور ایرانی نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری جنرل علی لاریجانی کی سعودی کراون پرنس سے ملاقات بھی تعلقات کی گرمجوشی اور امت کے روشن مستقبل کی طرف اشارہ ہے۔ جبکہ ایرانی پاسداران انقلاب کے میجر جنرل و سپریم لیڈر کے مشیر رحیم صفوی کی پاک سعودی معاہدہ کا خیر مقدم اور اس میں شمولیت کی خواہش حوصلہ افزا تبدیلی ہے۔پاک سعودی معاہدہ ہر لحاظ سے خوش آئند مگر دوسری طرف سعودی عرب سے معاہدہ کے بعد پاکستان ایک اور مستقل دشمن کے براہ راست نشانہ پر کہ جو شاطر بھی ہے بدطینت اور کینہ پرور بھی۔ اور جس کی عسکری صلاحیتیں پوری دنیا کے لیے خطرہ۔ اس میں بھی شک نہیں کہ آرٹیفشل و ہیومن انٹیلی جنس میں اسرائیل دنیا بھر سے آگے اور عسکری ٹیکنالوجی بھی اس کی مہارت بعض شعبہ جات میں امریکہ و فرانس کو مات دیتی نظر آتی ہے۔ ان عوامل کی موجودگی میں جہاں پاکستان کی سپاہ پر ذمہ داری کا بوجھ بڑھا ہے وہیں دفاعی پیداوار کے اداروں، تحقیقاتی مراکز اور ٹیکنالوجی کے شعبہ جات پر جو ذمہ داری آئی ہے اگر اس میں انہوں نے کامل یکسوئی، دیانت و محنت اور مہارت نہ دکھائی تو شیطان صغیر سے کسی بھی ایڈوینچر کی توقع، یہ معاہدہ ایک طرف خوش آئند تو دوسری طرف پاکستان پر دفاعی بوجھ بھی بڑھا ہے اور یقینا ہمارے دفاعی شبہ دماغوں کی ان معاملات پر بھی گہری نظر ہو گی کہ فوری طور پر پاکستان دفاعی معاملات میں لامحدود بجٹ کے قابل نہیں اور اسے محدود وسائل ،اپنی عسکری صلاحیتوں اور دشمن کی عیارانہ و مکارانہ چالوں سے بچتے ہوئے اپنے دفاعی نظام کو جدید اور مزید موثر بنانا ہے۔ حالانکہ پہلی بھارتی جارحیت کے بعد دوست ممالک نے پاکستان کو دیوہیکل بھارت سے نہ ٹکرانے کا مشورہ دیا تھا مگر پرعزم اور پریقیں عسکری قیادت نے اسے مسترد، اللہ پر توکل اور اپنے جوانوں کے جذبہ ایمانی کے بھروسہ پر چھ گنا بڑے دشمن کو سبق سکھانے کا مشکل اور خطرناک فیصلہ کر کے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ پھر اللہ کا فضل شامل حال ہوا جذبہ جہاد اور شہدا کے مقدس لہو نے آج سے عظمتوں کی بلند ترین سطح پر لا کھڑا کر دیا گرچہ ہمارے اعمال بدلے نہ افعال۔اس وقت بھی پاکستان کو جس دہشت گردی کا سامنا ہے اس میں بھارت اسرائیل ملوث جبکہ افغانستان سہولت کار۔ ان حالات میں مزید ممالک کیساتھ سعودی طرز پر معاہدہ ممکن ہے یا نہیں یہ فیصلہ تو قیادت نے ہی کرنا ہے مگر کیا عوام اعلی مقاصد کے حصول کیلئے اپنے آپ کو بدلنے پر تیار ہیں یہ ملین ڈالر سوال۔ ؟ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا مگر ہم خود کو تعصب، انتہا پسندی، جھوٹ، بدعنوانی اور بہتان تراشی کے ماحول سے نکلے اور سیاسی و حکومتی نظام بدلے بغیر امت کی قیادت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ سعودی حکومت تو پاکستان کیساتھ دفاعی بندھن میں بندھ گئی مگر کرپٹ ذہنیت، موجودہ بیوروکریسی اور نظام کے ہوتے ہوئے ھم سعودی عرب سے اپنے کیلئے باوقار معاشی ثمرات لے سکتے ہیں ۔ ؟ یہ ایسا سوال کہ سردست جس کا جواب حوصلہ افزا نہیں۔ ہاں اگر طاقت ور ادارے اصلاح کی ٹھان لیں اور بے لاگ احتساب بارے کوئی لائحہ عمل اختیار کریں تو عالمی سطح پر ملنے والی اہمیت، پذیرائی اور عزت کے ثمرات کو سمیٹا جا سکتا ہے۔ایک بار پھر مودی اور نیتن یاہو کا شکریہ، کہ جن کے مس ایڈوینچر نے پاکستان کو امت مسلمہ کا محافظ اور عالمی طاقتوں کی آنکھ کا تارا بنا دیا۔پاکستان پائندہ باد !
تھینک یو مودی، شکریہ اسرائیل
