Site icon Daily Pakistan

تیرے وعدے پہ جیئے

دوروزقبل ،سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سمیڈا) کی تنظیم نو اور سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز (ایس ایم ایز) کی ترقی پر جائزہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف نے ملکی ترقی کیلئے چھوٹی، گھریلو اور درمیانے درجے کی صنعتوں کی اہمیت کوتسلیم کرتے ہوئے شرکاء کو یقین دلایا کہ حکومت ایس ایم ای سیکٹر کو مستحکم کرنے کیلئے موثر پالیسیاں تشکیل دے رہی ہے۔ بظاہر یہ بیان قومی معیشت کی سمت درست کرنے کے عزم کا اظہار ہے، افسوس کہ ماضی کی طرح یہ بیانات بھی صرف زبانی جمع خرچ ہی معلوم ہوتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور کی حکومت نے بیانات کی حدتک ہمیشہ چھوٹی صنعتوں کی اہمیت تسلیم کی پرعملی اقدامات نہ ہونے کے باعث یہ شعبہ آج بدترین زوال کا شکار ہے۔ گلی محلوں کی سطح پرقائم چھوٹے کارخانے ،فیکٹریاں، دستکاری کے مراکز، خواتین کے گھریلو یونٹس اور ہنر مند مزدور طبقہ جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت سمجھاجاتا ہے، حکومتی عدم توجہی سے دم توڑتا جارہا ہے۔سیاسی قیادت کے خوبصورت بیانات اور زمینی حقائق کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ ایک طرف بڑے سرمایہ کاروں کو ٹیکس ریلیف، قرضوں میں نرمی اور مراعات دی جاتی ہیں، تو دوسری جانب چھوٹے کاروبار بجلی، گیس،بے ترتیب ٹیکس، مہنگے خام مال اور قرضوں کی عدم دستیابی کے باعث بند ہورہے ہیں۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ جس طبقے کو سہارا دینا معیشت کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے، وہی طبقہ حکومتی پالیسیوں کے بوجھ تلے دب کر دم توڑ رہا ہے۔ وزیراعظم کا حالیہ بیان یقیناامید دلاتا ہے پر قوم کو اب امیدوں کی نہیںبلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ کاش کوئی حکومت محض سیاسی نعرے لگانے کے بجائے چھوٹی گھریلو صنعتوں کے تحفظ و فروغ کیلئے پائیدار اور شفاف پالیسی پر عملدرآمد یقینی بنائے ۔
تیرے وعدے پہ جیئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مرنہ جاتے گراعتبارہوتا
جناب وزیراعظم قوم کوآپ سے بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح بہت ساری اُمیدیں ہیں پریقین کرنامشکل ہی نہیں ناممکن ہوچکاہے،آپ خوبصورت اوراُمیددلانے والے بیانات سے یقین دلانے کی کوشش کرنے کی بجائے عملی اقدمات کریں توبات بن سکتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ 24کروڑآبادی والے پاکستان کی معیشت کی مضبوطی اور پائیدار ترقی کا انحصار صرف بڑی صنعتوں پر نہیں بلکہ چھوٹی، درمیانے درجے اور گھریلو صنعتوں (SMEs) کے فروغ پر ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کا بیان کہ ملک کی صنعتی ترقی چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے استحکام سے جڑی ہے، حقیقت پر مبنی اور وقت کی ضرورت ہے۔ خصوصاً جب خواتین کی شمولیت کی بات کی جائے تو ایس ایم ای سیکٹر ان کے لیے روزگار، خود انحصاری اور سماجی وقار کی نئی راہیں کھولنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔چھوٹی صنعتیں کسی بھی ملک کی معاشی بنیاد کو مضبوط کرتی ہیں۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ صنعتیں نہ صرف غربت میں کمی کا باعث بن سکتی ہیں بلکہ دیہی اور نیم شہری علاقوں میں روزگار کی فراہمی کا سب سے موثر ذریعہ بھی ہیں۔ گلی محلوں کی سطح پر قائم چھوٹے کارخانے(ہینڈی کرافٹس)دستکاری، گھریلو مصنوعات کی تیاری اور آن لائن کاروبار کی شکل میں یہ صنعتیں لاکھوں خاندانوں کی کفالت کر سکتی ہیں۔ خاص طور پر وہ خواتین جو کم تعلیم یافتہ ہیں یا جن کے خاندان انہیں گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتے، ان کے لیے گھریلو صنعتیں کسی نعمت سے کم نہیں۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں چھوٹی صنعتوں کو چلانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بنتا جا رہا ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ، پیچیدہ ٹیکس نظام، قانونی رکاوٹیں، بینکوں کی سخت شرائط، اور مارکیٹ میں بڑے تاجروں کی اجارہ داری نے چھوٹے کاروباروں کو زندہ رہنے کے قابل نہیں چھوڑا۔بڑے تاجر جب اپنی ادھار پالیسیوں سے مارکیٹ پر قابض ہوتے ہیں تو چھوٹے کارخانے داروں اورہینڈی کرافٹ بنانے والوں کا سرمایہ گردش سے باہر ہو جاتا ہے، نتیجتاً وہ کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ گواہ ہے کہ ان کی معاشی ترقی کی بنیاد بھی چھوٹی صنعتوں پر رکھی گئی۔ مثال کے طور پر چین کو ہی لیجیے۔ چین کی معیشت کا انقلاب چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوںکی کامیاب حکمت عملیوں سے ممکن ہوا۔ چینی حکومت نے چھوٹے کاروباروں کیلئے آسان قرضوں، کم شرح سود، سبسڈی، اور ٹیکنالوجی ٹریننگ کے پروگرامز فراہم کیے۔ نتیجتاً وہاں لاکھوں چھوٹے کاروباروں نے ملکی معیشت کا پہیہ تیزی سے گھمایا۔ چین کے قوانین کے مطابق، چھوٹی صنعتوں کو خصوصی تحفظ حاصل ہے، ٹیکس کی شرح کم رکھی گئی ہے اور مارکیٹ تک رسائی کے مواقع وسیع ہیں۔اسی طرح جاپان، جنوبی کوریا، ملائیشیا اور جرمنی جیسے ممالک نے بھی چھوٹے کاروباروں کو معاشی ریڑھ کی ہڈیس قرار دے کر انہیں بھرپور سہولیات فراہم کیں۔ جرمنی میں 99 فیصد کاروبار SMEs پر مشتمل ہیں جو مجموعی طور پر 70 فیصد روزگار فراہم کرتے ہیں۔ جاپان میں چھوٹی صنعتوں کے لیے خصوصی مالیاتی ادارے قائم کیے گئے ہیں جو نہ صرف سرمایہ دیتے ہیں بلکہ کاروباری تربیت، مارکیٹنگ، اور برآمدات کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔اس کے برعکس پاکستان میں صورتحال تشویشناک ہے۔ یہاں چھوٹے کاروباری افراد کے لیے نہ کوئی مستحکم پالیسی ہے، نہ ادارہ جاتی تحفظ۔ صنعت کاروں کو گیس، بجلی اور خام مال مہنگے داموں ملتا ہے جبکہ ان کے تیار کردہ مال کی قیمت مارکیٹ میں بڑے ڈسٹری بیوٹرز طے کرتے ہیں۔ نتیجتاً منافع کا بڑا حصہ بیوپاریوں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے اور کاریگر یا گھریلو صنعت کار خسارے میں رہتا ہے۔ حکومت واقعی چھوٹی صنعتوں کو فروغ دینا چاہتی ہے تو محض بیانات کافی نہیں۔سب سے پہلے ایک جامع ”نیشنل ایس ایم ای پالیسی” بنانا ہوگی جس میں چھوٹے کاروباری افراد کے لیے آسان ٹیکس نظام، نرم قرضہ جات، قانونی تحفظ اور توانائی کے خصوصی پیکیجز شامل ہوں۔خواتین کے لیے مخصوص اسکیمیں متعارف کرانا بھی ضروری ہے تاکہ وہ گھروں میں بیٹھے اپنی مصنوعات تیار کر سکیں اور آن لائن یا کوآپریٹو مارکیٹنگ سسٹم کے ذریعے انہیں فروخت کر سکیں۔ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے اس دور میں حکومت چھوٹے کاروباروں کو آن لائن مارکیٹ پلیٹ فامزتک رسائی دے تو پاکستان کے دستکار، گھریلو خواتین اور ہینڈی کرافٹ تیار کرنے والے عالمی سطح پر اپنے کام کو پیش کر سکتے ہیں۔ بھارت جیسے ملک نے میک اِن انڈیا اور ”ڈیجیٹل انڈیا” کے تحت چھوٹے کاروباروں کو آن لائن مارکیٹ میں شامل کیا اور اربوں ڈالر کا فائدہ حاصل کیا۔ پاکستان بھی اسی ماڈل کو مقامی حالات کے مطابق اپنا سکتا ہے۔ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹرز اور ووکیشنل اداروں کو فعال بنایا جائے تاکہ نوجوانوں کو عملی ہنر سکھایا جا سکے۔ تعلیم کے ساتھ ہنر کا فروغ ہی چھوٹی صنعتوں کے استحکام کی بنیاد رکھے گا۔ ہر ضلع میں ایک ”ایس ایم ای انکیوبیشن سینٹر” قائم کر دیا جائے جو نئے کاروباروں کو رہنمائی، مشورہ، مالی معاونت اور قانونی مدد فراہم کرے تو مختصر مدت میں لاکھوں لوگ باعزت روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان اپنی مجموعی معیشت میں SMEs کا حصہ صرف 20 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد کر لے تو ملکی GDP میں سالانہ 2.5 فیصد اضافی ترقی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کی شمولیت میں اضافہ ملک کی لیبر فورس میں ایک نیا انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ آج بھی پاکستان میں صرف 20 فیصد خواتین ہی معیشت میں حصہ لے رہی ہیں جبکہ بنگلہ دیش اور ملائیشیا میں یہ شرح 35 سے 45 فیصد تک ہے۔خواتین کو چھوٹی صنعتوں میں فعال کردار دیا جائے تو وہ نہ صرف اپنے خاندانوں کا سہارا بنیں گی بلکہ معاشی خود مختاری کے ذریعے سماجی سطح پر بھی تبدیلی لائیں گی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ خواتین کے لیے ”ویمن انڈسٹریل زونز” قائم کرے، جہاں انہیں محفوظ، سستی اور آسان سہولیات میسر ہوں۔ چھوٹی صنعتیں صرف معیشت کا ایک جزو نہیں بلکہ ایک سماجی تحریک بھی ہیں جو خود انحصاری، محنت، اور برابری کو فروغ دیتی ہیں۔ حکومت سنجیدگی سے ایس ایم ای سیکٹر کی ترقی کے لیے اقدامات کرے تو نہ صرف بیروزگاری ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا بلکہ پاکستان کو معاشی خود مختاری کی راہ پر گامزن بھی کرے گا۔وزیراعظم کا وژن درست ہے ۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بیانات کو عملی اقدامات میں بدلا جائے۔ چینی ماڈل کو اپناتے ہوئے، آسان قرضہ جات، کاروباری تحفظ، توانائی کی سستی فراہمی اور خواتین کی فعال شمولیت کے ذریعے پاکستان میں چھوٹی صنعتوں کا انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ یہی انقلاب ملک کو معاشی بحران سے نکال کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔

Exit mobile version