Site icon Daily Pakistan

جرائم کی تشہیر۔۔۔!

جرائم کی تشہیر سے جرائم میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوتا ہے۔آپ پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا دیکھیں تو اس میںزیادہ تر خبریںجرائم کے بارے میں ہوتی ہیں۔مثلاًکراچی کی لڑکی مظفر گڑھ میں قتل، ڈکیتی کی مزاحمت پر خاتون زخمی، فیصل آباد میںمخالفین کے گھر گھس کر فائرنگ، خاتون سمیت تین افراد قتل،قصور میں کم سن لڑکی کے ساتھ زیادتی،خانیوال میں اراضی تنازعہ پردو افراد قتل،وزیراعلیٰ نے آئی جی پولیس سے زیادتی کیس رپورٹ طلب،پولیس نے منشیات فروش کو دو کلو چرس سمیت گرفتار کرلیا،پٹرول پمپ سے ڈاکوﺅں نے پانچ لاکھ روپے اور دو عدد موبائل فون سیٹ چھین کر فرار،ڈاکوﺅں نے گن پوائنٹ پر خواتین سے پرس اور موبائل فون سیٹ چھین لیا، اوباش نوجوانوں کی12سالہ بچے سے بدفعلی، مقدمہ درج۔ڈاکوﺅں نے گن پوائنٹ پر موٹرسائیکل سوار کو لوٹ لیا،11 سالہ لڑکے سے زیادتی کرنے والا اوباش گرفتار،سنوکر پر جواءکھیلنے والے16قمار باز گرفتار،حرام کاری کی غرض سے خاتون فروخت کرنے پر خاتون سمیت تین افراد کے خلاف مقدمہ درج، دو منشیات سمگلر گرفتار، بارہ کلوچرس برآمد،دو اوباشوں کی بارہ سالہ بچے سے زیادتی، ملزم گرفتار۔مقدمہ بازی کی رنجش، ڈنڈوں کے وارکرکے دو افراد کو زخمی کردیا گیا۔
"شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی”
ایسی خبر یں شائع کرنے سے لوگوں کو کیا پیغام دیا جاتا ہے؟ کیا ایسی خبروں سے جرائم میں کمی واقع ہوتی ہے ؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہوگا بلکہ ایسی خبروں سے جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔مثلاً ایک لڑکے یا لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوئی تو ایسی خبروں کی ایک لائن لگ جاتی ہے۔ اخبارات کے مطابق ایک جگہ بارہ سالہ بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی تو دوسری جگہ گیارہ سالہ بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی۔اسی طرح چھیناجھپٹی کی خبروں کی شائع کرنے سے ایسے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ جو افراد ایسا نہیں کرتے ہیں ، لیکن بعض اوقات ایسی خبروں سے ان کے ذہنوں میں بھی یہ بات آجاتی ہے کہ چلو یہ کام کرتے ہیں کیونکہ یہ رقم بٹوارنے کا آسان کام ہے،وہ بھی راہزنیوں جیسی وارداتوں کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔کم سن لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی خبروں سے دوسروں کو اس طرح زیادتیاں کرنے کےلئے ایک راستہ دکھانے کے مترادف ہے۔منشیات کے بارے میں خبروں کی تشہیر سے خصوصاً نوجوان طبقے کی سوچ اس جانب متوجہ ہوجاتی ہے،اسی وجہ سے عصر حاضر میں تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے۔کوئی بھی سینکڈل سامنے آجائے تو ہفتوں تک ٹیلی ویژن چینلوں پر سنسنی خیزی کا مقابلہ جاری رہتا ہے۔ٹیلی ویژن چینلوں پر ایسی خبروں سے عیاں ہوتا ہے کہ ایسا جرم صرف ہمارے ملک میں ہورہا ہے حالانکہ ایسی بات نہیں ہے بلکہ جرائم تقریباً ہر ملک میں کم یا زیادہ ہوتے رہتے ہیں لیکن وہ لوگ ایسی خبروں کی تشہیر نہیں کرتے ہیں۔جب سے پرنٹ اور الیکڑانک میڈیاکی نمائندگی کا حصول پیسوں سے شروع ہوا ہے،اس وقت سے جرائم کی خبروں میں تیزی آئی ہے،اس سے قبل بھی جرائم ہوتے تھے ، خبریں بھی شائع ہوتی تھیں لیکن شرح بہت کم تھی۔بزنس کے نام پر نمائندگان سے رقم لینا غلط ہے کیونکہ اس طرح غلط افراد رقم دے کر کسی چینل یا اخبار کے نمائندے بن جاتے ہیں، یقینا ان کی توجہ جرائم کی خبروں پر مرکوز ہونگی اور انھوں نے بلیک میلنگ ہی کرنی ہے ۔ نمائندگان سے بزنس کے نام پر رقم لینے کی بجائے اس کے کردار اور اوصاف کو دیکھنا چاہیے۔اچھے کردار کے لوگ میدان صحافت میں آئیں گے تو جرائم کی تشہیر کم ہوجائے گی۔
بعض ممالک میں جرائم کی خبروں کی تشہیر پر پابندی ہے،سعودی عرب میں جرائم کی خبر وںپر مکمل پابندی ہے، وہاں پر سزا کی خبر میڈیا پر آجاتی ہے لیکن میڈیا پر جرم کی تشہیر نہیں کرتے ۔ اسی طرح ترقی یافتہ ممالک میں بھی جرائم کی خبریں پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا پر بہت کم ہوتی ہیں۔ دنیا کے کم ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک میں بھی جرائم کی خبریں کم کی جاسکتی ہیں۔ دہشت گردی کی خبروں کی تشہیر سمجھ سے بالاتر ہے، حالانکہ دہشت گردی کی خبروں کی تشہیر سے دہشت گردوں کو حوصلہ ملتا ہے۔ دہشت گردی کی خبروں کو نہ صرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر پابندی ہونی چاہیے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی دہشت گری کی خبروں پر پابندی ہونی چاہیے۔دنیا کے تمام ممالک کو چاہیے کہ دہشت گردی اور نفرت پھیلانے والے خبروں پر سخت پابندی لگائیں اور ایسی خبریں پھیلانے والوں کےلئے سزا مقرر کریں۔ افغانستان ،ایران ،بھارت اور پاکستان چاروںممالک ایک دوسرے کا احترام کریں اور دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کریں۔دہشت گردی کی آگ کو پھیلانے کی بجائے ختم کرنے کی کوشش کریں، اگر یہ آتش پھیل گئی تو ان کے شعلوںکے اثرات سے کوئی بھی ملک نہیں بچ سکے گا۔
"ہر شخص جل رہا ہے حسد کی آگ میں
اس آگ کو بجھادے وہ پانی تلاش کر”
افغانستان ،ایران ،بھارت اور پاکستان تمام معاملات کو ٹیبل ٹاک کے ذریعے حل کریں،ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں،امن اور شانتی کا راستہ اپنائیں، پڑوسی ممالک تجارت کو ترجیج دیں ، ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجائیں اور اپنے شہریوں کو سہولیات اور سکھ دیں۔اس خطے میں دہشت گردی کی سب اہم سبب پڑوسیوں کے آپس میں ناخوش گوار تعلقات ہیں۔پڑوسی ممالک کے بہترین اور استوار تعلقات سے اس خطے کے حالات بدل سکتے ہیں ، دہشت گردی اور جرائم کوختم کیا جاسکتا ہے۔قارئین کرام!سب سے گذارش ہے کہ پرنٹ، ایکٹرانک اور سوشل میڈیا پر جرائم کی تشہیر سے پرہیز کریں۔ ارباب اختیار سے بھی التجا ہے کہ جرائم کی تشہیر پر مکمل قدغن لگائیں، جرائم کی تشہیر کرنے والوں کےلئے سزائیں مقررکریں اور ان کو سزائیں بھی دیں۔امریکہ ، یورپی اور دنیا کے تمام ممالک کو چاہیے کہ ان کی سرزمین سے کسی بھی ملک ، مذہب یا قوم کے خلاف سوشل میڈیاکا استعمال نہ ہو، ممالک ، مذاہب اور اقوام کے خلاف پروپیگنڈا کرنےوالوں کے خلاف سخت ایکشن لیں، ان کی شہریت ختم کریں ،ایسے مجرموں کو آئی ڈی کارڈز،موبائل فون سمز اور پاسپورٹ جاری نہ کریںاور ایسے مجرموں پر سفری پابندی لگائیں کیونکہ یہ بھی دہشت گرد ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کو جرائم اور ہرقسم کی دہشت گردی سے پاک کیا جائے۔

Exit mobile version