آپ نے محسوس کیا ہوگا جہاں معاشرے میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی بیماریاں پھیل چکی ہیں ان میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جن کی پیروی میں معاشرہ بد سے بدترین معاشی کیفیت میں مبتلا ہے شادی بیاہ کی تقریبات کو ہم نے اندھی تقلید میں ہزاروں سے لاکھوں بلکہ صاحب دولت افراد نے تو انہیں کروڑوں روپے تک پہچا دیا ہے ہیرے جواہرات سے جڑے سونے کے زیورات تو ان کے لیے ایک عام سی بات ہے دولت نے انہیں معاشرے میں جو حقیقی یا مصنوعی نمایاں مقام عطا کیا ہے وہ اس ساکھ کوقائم رکھنے کے لیے موقع بے موقع بے دریغ خرچ کرتے ہیں اور پھر ان اخراجات پر اٹھنے والی بھاری رقوم وہ کسی نہ کسی طرح پوری بھی کرلیتے ہیں الہ دین کا چراغ جن کے ہاتھ میں ہو تو انہیں ناکامیوں کے اندھیروں میں بھٹکنے کی ضرورت نہیں رہتی ایک ایسی ہی شادی کی تحقیقاتی خبر جواخبارمیں چھپی اس میں بتایا گیا کہ 248ملین روپے اس تقریب پر خرچ کیے گئے ڈائمنڈ اور سونے کے زیورات پر 283000 امریکی ڈالر اور دلہن کی تیاری پر 124000 امریکی ڈالر کی رقم خرچ کی گئی اور شادی پر چار سو افراد کو مدعو کیا گیا اس کے علادہ بینڈباجوں اور محفل موسیقی کی محافل پر بھی کثیر اخراجات کیے جاتے ہیں کھانے پر جن افراد کوبلایا گیا ان کی ضیافت انواع اقسام کے کھانوں سے کی گئی یہی نہیں شادی بیاہ کی تقریبات ایک عرصہ پہلے سے شروع ہو جاتی ہیں روزانہ ڈھولک نائٹ پر دوستوں اور سہیلیوں کی آمد شادی بیاہ کے پرانے اور نئے گانے ڈانس ویلیں مایوں تیل مہندی سہرا بندی بارات پر بینڈ باجے لاکھوں روپے کے عروسی لباس پھر ولیمے پر بے دریغ خرچ یہ سب انہی لوگوں کو سجتا ہے جن کے پاس دولت کی کمی نہیں ہوتی ان کے ذرائع آمدن کچھ ظاہری ہوتے ہیں اور کچھ خفیہ دولہا اور دلہن شادی کی خوشی میںبیرون ملک بھی روانہ ہوتے ہیں اور دیار غیر میں اخراجات بھی ان لوگوں کو زیب دیتے ہیں جن کے پاس دولت کے انبار ہوں ایسے لوگوں کی شاہ خرچیوں نے معاشرے میں بے جا اخراجات کی داغ بیل ایسی ڈالی کہ ان سے چھٹکارا مشکل نظر آتا ہے عام آدمی جس کی آمدنی محدود ہو کر گھریلو اخراجات پورے کرنا بھی سہل نہ ہوں اور پھر دو چار بیٹیو ں کا ساتھ بھی ہو تو بتایئے وہ شاہانہ اخراجات کیسے کر سکتا ہے ایسی بیٹیوں کے نصیب کھلتے ہی نہیں وہ گھر کے ماحول میں چاندی جیسے بالوں کے ساتھ بوڑھی ہو جاتی ہیں اگر تعلیم یافتہ ہوں تو اپنا بوجھ خود اٹھانے کے قابل ہوتی ہیں ورنہ باپ یا بھائیوں کے کندھوں کا بوجھ بنے کڑوی کسیلی باتیں سن سن کر وقت گزارتی ہیں آجکل تو رشتے بھی آسانی سے نہیں ملتے لوگ چاہتے ہیں سسرال سے دولت ملے گھر گاڑی بینک بیلنس سب کچھ لڑکی والوں کی طرف سے حاصل ہو جائے لڑکے والے جو کچھ شادی کے موقع پر بہو کو دیتے ہیں وہ سب کچھ اپنے گھر ہی واپس لے جاتے ہیں انہیں تو کچھ نقصان نہیںہوتا تنگ نظری سے ہٹ کر اگر ٹھنڈے دل سے سوچا جائے تو ایسے فضول اخراجات کو جو ایسی تقریبات پر سامنے آتے ہیںکیا صحیح کہا جاسکتا ہے یقینا جواب اس کے برعکس ہوگا دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ایسے مالدار جو کروڑوں روپے چھوٹی چھوٹی تقریبات پر صرف کرنے میں دریغ نہیں کرتے حکومت کو ٹیکس دیتے وقت اپنے آپ کو مقروض یا کاروبار میںنقصان ہی ظاہر کرتے ہیںٹیکس دینا انہیں ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اپنی کھال ادھیڑ کر دے رہے ہوں حکومت سے ہر طرح کی مراعات حاصل کرنا وہ اپنا حق سمجھتے ہیں اور فرائض کی ادائیگی ظلم اور جبر کے ہم پلہ اس سوچ کی تشہیر میں وہ ہر حربہ استعمال کرتے ہیں سب کچھ تو ہمارے سامنے ہے آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہیں تو یہ الگ بات ہے ہمیں بدقسمتی سے اچھے کوا چھا کہنے برے کو براکہنے اور برے اعمال کا احساس دلانے کی ہمت اور سوچ ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ معاشرے میںمتعدد بری رسومات جڑ پکڑ چکی ہیں اکثریت برائی کو دیکھ کر مصلحتا خاموشی اختیار کرلیتی ہے خاموشی کو برائی کے پنپنے میں رضامندی ہی کہا جاسکتا ہے معاشرہ اسلامی اس وقت تک بن ہی نہیں سکتا جب تک انفرادی طور پر ہم اسلامی طرز زندگی اختیار نہیں کرتے سادہ زندگی گزارنے کے اصول توہمیں اللہ تعالیٰ نے سرکار دوعالم ۖکے ذریعے بتا دیے ہیں سرکارنے اپنی زندگی میں ان اصولوں پر عمل کر کے معاشرے کو آسانیاں فراہم کر دیں لیکن ہم ان اصولوں پر عمل پیرا ہونے کو تیار نہیں ڈرتے ہیں کہ لوگ سمجھیں گے کہ ہم غیر مہذب ہیں ابھی تک پرانی سوچ سے چمٹے ہوئے ہیں دنیا کہاں پہنچ گئی اور ہم ابھی تک پرانے عمل میں گرفتار ہیں کیا ہم نے کبھی سوچا کہ سرکاردوعالم ۖنے اپنی بیٹی کی شادی کس طرح کی یہ طرز زندگی اصل میں ہمارا رول ماڈ ل ہے آپۖ ایسا کر سکتے تھے کہ اپنی بیٹی کی شادی دنیا کی واحد ایسی شادی بنا دیتے کہ اخراجات بے حساب ہوتے اور تاقیامت کوئی کتنا ہی دولت مند ہوتا وہ اس معیار کے قریب بھی نہیں گزر سکتا لیکن کائنات کی قابل تکریم ہستی اور عظیم ہستی نے انسانوں کو اور ان کے معاشرتی اصولوں کو اتنا سادہ اور قابل تحسین بنا دیا کہ بے جا تکالیف جو زندگی کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے بے چین رہتی ہیں ان سے آزاد کر دیا ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور یقینا ہیں بھی لیکن اپنی زندگی کو مغربی افکار کے سانچے میں ڈھالنے کی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتیاسی وجہ سے معاشرے میں ایسی لاتعداد مکروہ روایات اور رسومات مروج ہیں جن سے نجات نہیں دن بدن انکی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے خوشی ہو یا غمی دکھاوا اپنے عروج پر ہوتا ہے شادی بیاہ تو ایک طرف انتقال پر ملال پر بھی سوگواری کے ماحول کو ایسے ترتیب دیا جاتا ہے کہ جیسے کوئی خوشی کی تقریب ہو سوئم پر فروٹ مارکیٹ سے خریدا ہی جاتا ہے لیکن کھانے پینے کے لوازمات ہوٹل سے ارینج کیے جاتے ہیں باوردی ویٹر کھانا سرو کرتے ہیں کھانے کی متعدد ورائٹی کے ساتھ ساتھ سویٹ ڈش کی کئی اقسام بھی آنے والے مہمانوں کی تواضع کیلئے کھانے کی میز پر سجی ہوتی ہیں جیسے مہمان ولیمے کی دعوت پر آئے ہوں ایک صاحب بہت ہنسی مذاق کی باتیں کرتے ہیں وہ دعوت مرگ کو انجوائے کرنے کے بعد فرمانے لگے میاں صاحب اسی روٹی تے رج کے کھا لئی اے پتہ نئیں قبر وچ فرشتیاں نے میت دے کن پھڑائے ہون اللہ اگلیاں منزلاں آسان کرے۔یہ تو لائیٹ موڈ کی بات تھی جو دکھاوے پر طنز ہے اصل میں ہماری زندگی کی حقیقت صرف اور صرف اسلامی قوانین اور حضورۖ کے نقش قدم پر چلنے میں ہے اس ذات گرامی سے ہمارا ماتحت کا تعلق ہے ماتحت کا کام ہے ماننا درگزر کرنا نہیں اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر گرفت میں آتا ہے اس وقت ہماری سوچ اور عمل کا یہی انداز ہے ہر اصول کو ہم اپنی مرضی اور منشاکے مطابق تابع کرنا چاہتے ہیں یعنی جو میں خود سوچوں اسی پر عمل کروں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا جس پاک ہستی نے انسان کی تخلیق کی وہی اس کی زندگی گزارنے کے اصولوں کو دینے والا ہے اس پر عمل کر کے ہی زندگی کامیابی کے ساتھ گزر سکتی ہے ورنہ لہو لعب میں گزری ہوئی زندگی اسی طرح کے نتیجے سے ہمکنار ہوگی اپنی تکالیف کا انسان خود ہی مصنف ہے انسان کی فطرت میں سرکشی ہے اور پھر یہ باغی کہلاتا ہے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ کر اپنے بنائے ہوئے راستوں پر چلنا ہی بغاوت ہے ۔اللہ اس عمل سے محفوظ رکھے اس کا کرم ہو جائے تو طوفانوں کی ذد میں آیا ہوا جہاز بھی حفاظت سے لینڈ کر جاتا ہے سرکار دوعالمۖ کے دین کو ماننا ان کے خیال کو ماننا آ جائے تو صاحب نصیب بننے میں دیر نہیں لگتی فضل کی تلاش بھی فضل ہے اسکا انتظار بھی فضل ہے دنیا کو امن کا گہوارا بنانے والی ہستی ہمارے پیغمبر ہیں ہم ان کے امتی ہیں صاحب نصیب ہیں پھر اپنے رہبر کی بتائی ہوئی زندگی سے دور کیوں ہیں اس کیوں کا جواب ہم نے خود تلاش کرنا ہے اللہ کے کاموں میں ہم کیوں کا اظہار نہیں کر سکتے وہ ذا ت جو کرتی ہے جیسے کرتی ہے سب ٹھیک ہے اسکی مصلحت کو سمجھنے کی صلاحیت ہم میں موجود نہیں ہم نے پیروی اللہ اور حضور ۖکے بتائے ہوئے قانون اور اصولوں کی کرنی ہے اس میں کامیابی ہے اور آسان زندگی گزارنے کے اصول بھی موجود ہیں۔
جعلی شہرت اور دکھاوا
