Site icon Daily Pakistan

جمہوریت یا سٹیج ڈرامہ؟۔

ٓٓٓٓہمارے ایک وزیر صاحب نے نکتہ اٹھایا ہے کہ تیل کی قیمت مہنگائی نہیں ہوتی بلکہ مہنگائی سے تیل مہنگا ہوتا ہے، بھلا ہو وزیر صاحب کا کہ انہوں نے عوام کی رہنمائی کی۔ یہ ایک زبردست نکتہ ہے جو موصوف نے بیان کیا ہے، بلکہ یہ گل افشانی ہے ۔ بھر حال جب بھی سرمایہ دار کو ضرورت ہوتی ہے وہ مارکیٹ میں اشیائے صرف کی مصنوعی قلت پیدا کر کے غریب عوام کو مہنگائی کا تحفہ دیتے ہیں آج عام آدمی معاشی جبر کا شکار ہے اور یہ سرمایہ دارانہ نظام کا شاخسانہ ہے جو لوٹ کھسوٹ کو روا رکھتا ہے اور ا س نظام نے انسانیت کو بھیڑیوں کے حوالے کردیا ہے محنت کش، مذدور اور کم آمدنی والے لوگ حیوانوں جیسی ذندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان پر ناجائز ٹکسیز تو لگائے جاتے ہیں مگر ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی عوام چینی اور آٹے کی تلاش میں ایسے زلیل ہوتے نظر آتے ہیں گویا وہ افریقہ کے کسی قحط ذدہ علاقے کے باشندے ۔وصول تو یہ ہونا چائیے کہ جو چیز بیچتا ہے وہ ٹیکس ادا کرے مگر ہمارے ہاں جو سرمایہ داریت ہے اس کا اصول نرالہ ہے یہاں جو چیز خریدتا ہے وہ ٹیکس ادا کرتا ہے اور وہ بھی دوہرا ور تہرا ٹیکس،ایک مھنگائی اور پھر دوہرا ٹیکس یہ مظلوم انسانیت کیلئے عذاب ہے اس کے نتیجے میں غریب آدمی کی کمر جھکتی چلی جاتی ہے اور سرمایہ دار کی توند بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ اس کی ایک آسان مثال یہ ہے کہ ایک موبائل صارف جب کارڈ خریدتا ہے تو فوری طور پر آٹھ دس روپئے ا س سے کاٹ دئے جاتے ہیں اور اور پھر جب وہ کال کرتا ہے تو مذید پندرہ فیصد کٹوتی بھی اس سے سیلز ٹیکس کی صورت میں ہوتی ہے۔اور یہ مثال دیگر اشیاءکی بھی ہے عوام سے ٹیکس تو وصول کیا جاتا ہے مگر عوام کو کیا دیا جاتا ہے؟عوام کے سامنے میڈیا کے ذریعے جمہوریت کا ڈھنڈورہ بھی پیٹا جاتا ہے لیکن یہ جمہوریت کے نام پر سرمایہ داروں کا سٹیج ڈرامہ ہے جو عوام کو طفل تسلی کے طور پر کھیلا جاتا ہے ۔ حالانکہ دیکھا جائے تو تو جمہوریت میں اولین چیز عوام کا باشعور ہونا ہے،ووٹر کو معاشی طور پر مضبوط ہونا چائیے اور ان کی سوچ آذاد ہونی چائیے جس قوم کو دیدہ دانستہ پسماندہ رکھ کر بھوکا اور خوف کا شکار رکھا جارہا ہو اس کے افراد کی کیا رائے ہوگی اور ان کی رائے کو کیسے آذاد کھاجاسکتا ہے اور ان کا شعور کیسے بلند ہوسکتا ہے ؟اور ان کی ووٹ کی حیثیت ہی کیا ہے؟ہمارا ذہن مغربی میڈیا بناتا ہے اور مغربی پروپگنڈے نے ہمارے آنکھوں پر ایسی پٹی باندھی ہے کہ ہم وہی کچھ ےاد کرتے ہیں جو ہمیں یہ میڈیا پڑھاتا ہے در اصل ہم نے خولوںمیں بند ہوکر سوچنا شروع کیاہے اور کنویں کے مینڈک بنے ہوئے ہوئے ہیں اور آٹے کی تلاش اور روٹی کے چکر نے سب کو چکرادیا ہے یہاں تک کہ ہم آذادی سے واقفیت تک بھول گئے ہیں جب پورے ملک کے وسائل پر چند خاندان قابض ہو اور ملک کے دفاع تک سامراجی بیساکھیوں کی ضرورت ہو ملک کا اسی فیصد چند خاندانوں کے ہاتھ میں ہو اور پھر بھی عوام کی اور ملک کی ترقی کی بات کی جائے تو اس سے حسین مزاق اور کیا ہو سکتا ہے؟پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس ملک کی اکثریت کا پیشی زراعت ہے اور اکثریتی لوگ بھی اس پیشے سے وابستہ ہیں اس کے باوجود اس ملک میں اچانک کبھی چینی اور آٹے اور دال چاول جیسے بحران کا پیدا ہونا ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک میں غلہ کی قلت ہے کیونکہ نہ کوئی طوفان آیا ہے اور نہ ملک میں قحط آیا ہے اور نہ ہی ملک کو جنگ کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ دشمن نے ہمارا سب کچھ ملیا میٹ کردیا ہے بلکہ یہ سب کچھ سرمایہ داروں کا کیا دھرا ہے جنہوں نے اپنے سرمایہ کا حجم بڑہانے کیلئے مصنوعی قحط کی کیفیت ملک میں پیدا کرکے کروڑوں کمائے اور یہ پہلا موقع بھی نہیںہے کہ ایسا ہوا ہے بلکہ اس ہے پہلے بھی ایسا ہوتا رھا ہے کابھی آٹے کا بحران پیدا کیا جاتا ہے اور کبھی چینی کا اشیائے صرف مارکیٹ سے غائب کر کے سرمایہ دار چند دنوں اربوں کمالیتے ہیں۔چونکہ ہم نے اپنے دروازے ہر دور میں سامراج کیلئے کھولے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ترقی کا راستہ رک گیا ہے اور عوام کی حالت گرتی چلی جارہی ہے اور معیشت، تجارت اور سیاست سب کچھ تباہی کے دہانے پر ہیں سرمایہ دارانہ ذہنیت نے ہر شخص کو سرمایہ پرست بنادیا ہے اور سرمایہ پرستی کی خوب نشوونما ہوئی ہے جب سے امریکہ نے پاکستان کو امداد اور قرضہ کا موقع فراہم کیا ہے تب سے پاکستانی عوام اور پاکستان کی معیشت کی پٹڑی الٹے سمت چلنا شروع ہوئی ہے اور رفتار بھی اس کی خاصٰ تیز ہے جس طرح امریکہ نے آج افغانستان اور عراق میں جنگ اپنے مفادات کیلئے چھیڑی ہے اسی طرح 1950اور 1951 امریکہ نے کوریا کی جنگ چھیڑی تھی اس دوران امریکہ نے پاکستان پر مہربانی کی اور پہلی بار پاکستان میں امریکی تجارتی سرمایہ داروں کو مواقع فراہم کئے اور تب سے یہاں امریکی تجارتی مفادات کی نشوونما ہوئ۔یہ بات ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کوریا کی جنگ میں امریکی افواج کی امداد کیلئے پچاس ہزار ٹن گندم امداد کے طور پر بھیجی تھی اور اس کے بعد ملک میں گندم کا ایک مصنوعی قحط پیدا کیا گیا تھا اور بعد ازاں امریکہ نے کمال مہربانی سے پاکستان پر امداد کے دروازے کھول دئے اور جو اونٹ امریکی گندم بندرگاہ سے گاڑیوں تک لاتے تھے ان پر ان کے گلے میں ”امریکہ تیرا شکریہ“کے تختیاں لٹکا کر امریکہ کا استقبال کیا گیا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے اور اس طرح پاکستان کی آذادی کو امریکی امدادکے بدلہ میں گروی کے طور پررکھ دیا گیا اور اس دن سے پاکستان کی معیشت اور پاکستانی قوم کی حالت بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے اور جو آنے والے دن ہیں پاکستان کے حوالے سے وہ بڑے بھانک ہیں کیونکہ امریکیوں کی سوچ اور ان کی ادائیں بڑی خطرناک ہیں۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ امریکہ نے ہر اس منصوبے کی پاکستان میں مخالت کی جو قومی نوعیت کا ہوتا ہے گوادر کے منصوبے کو فیل کرنے کیلئے اس نے وہاں خطرناک خونی کھیل کھیلا اسی طرح اس نے سٹیل مل جیسے بھاری منصوبے کی مخالفت کی اور اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی اور اسی طرح فولاس اور لوہا کی مشینری لگانے کی بھی اس نے مخالفت کی اور پاکستان کو مشینری بھاری گاڑیوں ، کھادوں،کیڑے مار ادویات ، پیپسی اور کوکا کولا، چائے اور سگریٹ اور گاڑیوں کے پرزوں اور سامان تعیش کی خرید اور فروخت کیلئے ایک صارف ملک بنا دیا اور اب یہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کیلئے ایک بہترین منڈی ہے اور اسی نظریہ کے تخت امریکہ ایران اور پاکستان کے درمیان سوئی گیس پائپ لائن منصوبے کی مخالفت کر رہا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ پاکستان کا تعلق اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدہ رہے اور اس کے مزموم عزائم پورے ہوتے رہے۔ایسے میں ضروری ہے کہ مغربی میڈیا اور اس کے آلہ کار ذرائع کی گمراہ کن پروپگنڈے پر گہری نظر رکھی جائے اور اور امریکہ کی طے شدہ حکمت عملی کے مطابق سفر کرنے کی بجائے وسیع النظر قومی سوچ کی آبیاری کی جائے اور یہ حقیقت بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ آج کے دنیا کے مسائل کا حل سرمایہ دارانہ جمہوریت میں نہیں بلکہ جمہوریت میں ہے سرمایہ جمہوریت کا تماشا امریکہ میں ہوتا ہے وہاں پارٹیوں کی حکومتیں بدلتی ہیں مگر ان کی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں نہیں بدلتی ہیں ۔ امریکہ میں ری پبلکن ہو یا ڈیموکرٹیک اور برطانیہ میں لیبر آجائیں اور یا کنزرویٹیو پالیسیاں ان کی وہی رہتی ہے ۔ یہ اس لیئے کہ وہاں جمہوریت کے آڑ میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ سرمایا دارانظام کے تحفظ کیلئے ہوتا ہے اور یہ کھیل وہ یھاں بھی کھیل رہا ہے اور اس کے نتائج عوام کے سامنے ہیں۔

Exit mobile version