بنو امےہ کا دسواں اور خاندان مروان کا ساتواں حاکم خلےفہ عبدالملک کا بےٹا اپنے منصب داروں کی شاہانہ آراستگی کے ساتھ ،آگے پےچھے خدام کی معےت مےں حج بےت اﷲ کےلئے مکہ معظمہ گےا ۔مناسک حج ادا کرنے اور طواف کے بعد وہ حجر اسود کا بوسہ لےنے کےلئے آگے بڑھا ،لوگ اےک دوسرے پر گرتے پڑتے اےک متلاطم سمندر کی مانند حائل تھے ۔وہ اےک کرسی پر بےٹھ کر مجمع چھٹنے کا انتظار کرنے لگا ،ناگاہ لوگوں کی تکبےر و تہلےل سے فضا مےں اےک مہےب ارتعاش ہوا ۔اس شخص نے طواف کے بعد جونہی حجر اسود کا رخ کےا لوگوں کی صفوں مےں ارتعاش پےدا ہوا لوگ اس عظےم ہستی کو چلنے کےلئے بہت کشادہ راستہ دے رہے تھے ۔لوگوں کی نظرےں اس عظےم ہستی کو دےکھنے کےلئے بے قرار تھےں ۔جو آپ ؑ کو دےکھ لےتا اس کی آنکھوں مےں خوشی کے آنسو تھرکتے جو نہ دےکھ پاتا اپنی محرومی قسمت پر آنسو بہاتا ۔ہشام جو کرسی پر بےٹھا حالات کا مطالعہ کر رہا تھا جل بن کر خاکستر ہو گےا ۔کسی شخص نے ہشام سے پوچھا کہ ےہ کون ہے جس کےلئے لوگ پلکےں بچھا رہے ہےں ؟ ہشام نے عمداً جانتے ہوئے کہا کہ مےں نہےں جانتا ےہ کون ہے ۔ےہ سن کر دنےائے عرب کا مشہور شاعر فرزدق سخت مضطرب ہوا اور پکار اٹھا مےں اسے جانتا ہوں اور فی البدےہہ اےک عظےم الشان قصےدہ پڑھا جو نذر قارئےن ہے ۔” اے ہشام اگر تو ان کو نہےں جانتا تو مجھ سے سن ےہ وہ ہےں قرآن جن کے فضائل کو سےنے سے لگائے ہوئے ہے ۔ےہ وہ ہےں جن کے دلےرانہ اقدام دےکھ کر شےروں کے دل کانپتے ہےں ۔ےہ وہ ہےں جن کی جودو سخا پر ابر باراں کو بھی رشک آتا ہے ۔ےہ وہ ہستی ہے جس کو خانہ کعبہ حل و حرم سب پہچانتے ہےں ۔اس کے قدموں کی چاپ کو زمےن بطخا بھی محسوس کر لےتی ہے ۔ان سے ساری دنےا واقف ہے ،ساری مخلوق ان سے شناسا ہے ۔ےہ اس خاندان کے فرد ہےں جو پورے روئے زمےن کےلئے باعث زےنت ہے ۔انہی لوگوں نے اپنے علم کی روشنی سے ہمارے لئے دےن کی وضاحت فرمائی ۔ےہ وہ ہےں جن کے دروازے سے کبھی سائل خالی نہےں لوٹتا ۔ےہ وہ ہےں کہ خالق کائنات نے ان کو بڑے فضائل عطا فرمائے ہےں ۔ان کے جسم پھول کی مانند تازہ اور نورانی بنائے گئے ہےں ۔ےہ فرزند فاطمہ ہےں ۔اگر تو نہےں پہچانتا تو سن ےہ تمام بندگان خدا مےں افضل ترےن ہستی ہے ۔ےہ وہ درخت ہے جس کی جڑ خدا کا رسول ہے اس کی روشن پےشانی سے تارےکےاں چھٹ جاتی ہےں “۔قصےدہ کے اشعار سن کر ہشام غےض و غضب مےں آ گےا اور فرزدق کو قےد کر دےا ۔معزز قارئےن ےہ معزز اور محترم ہستی امام زےن العابدےن ؑ کی تھی ۔آپ کو جب فرزدق کی قےد کا علم ہوا تو آپؑ نے اسے بارہ ہزار درہم بھےجے لےکن اس نے لےنے سا انکار کر دےا اور کہا کہ مےں نے دنےاوی اجرت کےلئے ےہ قصےدہ نہےں کہا ۔آپؑ نے دوبارہ ےہ رقم بھےجی اور کہا کہ ہم اہلبےت کوئی چےز دے کر واپس نہےں لےتے۔فرزدق نے مجبور ہو کر عطےہ رکھ لےا ۔آپؑ کی سےرت اےک مقدس سےرت ہے حضرت امام زےن العابدےنؑ لوگوں کا مقتدا ہونے سے پےشتر انسانےت کا اےک عظےم پےکر تھے ۔آپ کی ذات گرامی اپنے جلو مےں لطےف قدروں کو اس طرح اٹھائے ہوئے ہے کہ فرقہ پرستی مٹ جائے ،لوگوں کے دلوں مےں ےگانگت پےدا ہو اور الفت و محبت کا غلبہ ہو ۔آپؑ 15جمادی الثانی 38ھ ےوم جمعہ بمقام مدےنہ منورہ پےدا ہوئے ۔آپؑ کی والدہ شہر بانو اےران کے ےزد جرد بن شہر ےار بن پروےز بن ہر مز بن نوشےرواں عادل کسریٰ کی بےٹی تھےں آپ ؑ کے والد ہادی برحق حضرت محمد کے نواسے تھے اور حضرت علیؑ شےر خدا کے بےٹے حضرت امام حسےن ؑ تھے ۔خدا وند تعالیٰ نے آپ کو اےسا بےٹا عطا کےا کہ جس کے سامنے عرب و عجم کے تمام انسانوں نے عقےدت و محبت سے نگاہےں خم کر دےں ۔اس بچے مےں امام حسےن ؑ کی شباہت ،والدہ کا سا انکسار اور بھلا پن جمال آراءتھا اور حضرت علیؑ شےر خدا کی مہارت ،نور بصےرت و ذہانت اور نبی کرےم کے علم و فضل کے ورثہ مےں بھی ان کو پورا پورا حصہ ملا تھا امام زےن العابدےن بچپن مےں بےمار ہو گئے حضرت امام حسےنؑ نے آپؑ کی طبےعت اور خواہش کے متعلق سوال کےا تو فرماےا کہ بابا جان مےں اب اچھا ہوں مےری خواہش صرف ےہ ہے کہ خدا وند عالم مےرا شمار ان لوگوں مےں کرے جو پروردگار عالم کے قضاءو قدر کے خلاف کوئی خواہش نہےں رکھتے جواب سے امام مسرور ہوئے اور فرماےا کہ بےٹا تمہارا جواب وہی ہے جب حضرت ابراہےمؑ کو منجنےق مےں رکھ کر آگ کی طرف پھےنکا گےا تو حضرت جبرائےل نے حضرت ابراہےمؑ سے کوئی خوہش پوچھی تو آپ نے کہا کہ بے شک مجھے خواہش و حاجت ہے لےکن تم سے نہےں اپنے پالنے والے سے ہے ۔مسلسل روزوں اور ساری ساری رات کی عبادت اور کتاب اﷲ کی تلاوت مےں گزار دےتے آپ کی آنکھوں سے کثرت کے ساتھ آنسو جاری ہوتے ۔آپ ؑ کا قلبی رجحان ،دل گروےدگی اور عشق کا سوز قرآن کےلئے وقف تھا آپ جس وقت قرآنی آےات کی تشرےحات اور مفہوم پر تقرےر کرتے تو سننے والوں پر ان ہی سا خوف اور خشےت طاری ہو جاتی اور اےسا معلوم ہوتا گوےا قرآن صرف علیؑ بن حسےنؑ کو ےاد ہے باقی سب بھولے ہوئے ہےں چونکہ ان کی کوئی نظےر نہ تھا اس لئے آپ کو زےن العابدےن ؑ پکارا گےا اےک وہ ہستی جس کا مطمع نظر معبود کی عبادت اور خالق کی معرفت مےں استغراق کامل ہو اور جو اپنی حےات کا مقصد اطاعت خدا وندی سمجھتا ہو علم و معرفت حد درجہ کمال بھی رکھتا ہو اس کی عبادت کو سطح قرطاس پر کےونکر لاےا جا سکتا ہے ان کے پےہم سجدوں کی وجہ سے ان کو سجاد کہا گےا طلحہ بن شافی لکھتے ہےں کہ جب آپ نماز کےلئے مصلحیٰ عبادت پر کھڑے ہوا کرتے تھے لوگوں نے بدن مےں کپکپی کا سبب پوچھا تو ارشاد فرماےا کہ مےں اس وقت خدا کی بارگاہ مےں ہوتا ہوں اور اس کی جلالت مجھے از خود رفتہ کر دےتی ہے ۔28رجب 60ھ کو امام زےن العابدےنؑ حضرت امام حسےنؑ کے ہمراہ مدےنہ سے روانہ ہو کر وارد کربلا ہوئے ۔امام عالی مقام اور آپ کے 72جانثاروں نے رےگ زار کربلا پر جام شہادت نوش کےا ۔سانحہ کربلا کے وقت آپ بےمار تھے آپ کی پھوپھی حضرت زےنب سلام اﷲ علےہ نے آپ کی تےمارداری کی طرف توجہ دی قدرت کی مستور حکمت کا ےہی تقاضا تھا کہ وہ سلامت رہےں تاکہ اہلبےت کا مقدس خون روئے زمےن پر آباد رہے حالانکہ آپ کے شہےد ہوجانے مےںکوئی کسر نہےں رہ گئی تھی دشمنوں کی آنکھےں آپ کی طرف سے اندھی ہو گئےں اور ان کے دلوں کی خواہش پر پتھر رکھ دےا گےا جب پردہ ہٹا تو دنےا کو خدا کی حکمت سمجھ مےں آگئی حالانکہ کربلا کے واقعہ کے بعد ابن زےاد اور خود ےزےد اس پر معترض ہوا لےکن ان پر خدا کا ساےہ تھا ان کا سفر کوفہ و شام بڑا دلگداز تھا دربار ابن زےاد مےں اخلاقی انحطاط کے مظاہر ،امام حسےنؑ کے سر اقدس سے ابن زےاد کی گشت خےال،اہلبےت اطہار سے گستاخانہ گفتگو ،دمشق کے سفر کی جانگسل سختےاں ،امام مظلوم کا سر نےزے پر بلند ہونا ،ےزےد کے دربار مےں سر اقدس کی نمائش لگنا ،اےک اےک منزل سنگےن سے سنگےن تر ،مخدرات عصمت کا رسن رسےدہ ہونا ،19منزلےں طے کرنے کے بعد 36ےوم مےں امام زےن العابدےن ؑ کا ہتھکڑےوں مےں جھکڑے ہوئے شام پہنچنا ،ےہی وجہ تھی کہ اس اندوہناک واقعہ کے بعد تمام عمر کسی نے آپ کو مسکراتے ہوئے نہےں دےکھا ۔جب آپؑ خاندان رسالت کی باعصمت خواتےن کے ہمراہ دربار ےزےد مےں داخل کئے گئے تو آپ نے انبےاءکی طرح نہائت فصاحت و بلاغت کے ساتھ خطبہ ارشاد فرماےا اپنے خاندان کا تعارف کراےا اور نواسہ رسول حضرت امام حسےنؑ کی مظلومےت بےان کی تو ےزےد کے درباری اور امام حسےنؑ کی شہادت سے نا آشنا افراد دہاڑےں مار کر روئے اور پےٹنے لگے اور ان کی آوازےں بے ساختہ بلند ہونے لگےں ےہ حال دےکھ کر ےزےد گھبرا اٹھا کہ کہےں کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے اس نے اس کے رد عمل مےں فوراً موذن کو حکم دےا کہ اذان شروع کر دو تا کہ امام زےن العابدےن کا خطبہ منقطع ہو جائے ۔جب موذن ”اشہد ان محمد رسول اﷲ“ پر پہنچا تو آپؑ نے روتے ہوئے فرماےا ےزےد مےں تجھ سے خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں بتا حضرت محمد مصطفیٰ مےرے نانا تھے ےا تےرے ےزےد نے کہا آپ کے ، آپ نے فرماےا پھر کےوں تو نے ان کے اہلبےت کو شہےد کےا ےزےد ےہ کہتا ہوا چلا گےا مجھے نماز سے کوئی واسطہ نہےں۔آپ کی حالت اس گوشہ گےر عابد و زاہد کی سی ہو چکی تھی جو دنےا سے بالکل بے واسطہ ہو گےا ہو گوشہ نشےنی کی زندگی مےںہی آپ کو زہر دیدےا گےا ۔آپ بتارےخ 25محرم الحرام بمطابق 714ءدرجہ شہادت پر فائز ہو کر جنت البقےع مےنںدفن ہوئے۔
حضرت امام زےن العابدےن علےہ السلام
