کسی بھی ملک کی ترقی،مضبوطی،خوشحالی اس کی معیشت سے مربوط ہوتی ہے۔پاکستان نے سات دہائیوں میں کئی اتارچڑھادیکھے۔ خصوصامعیشت کے حوالے سے مسلسل امتحانات کا سامنا کیاایک طرف سازشی اورکم ظرف دشمن،دوسری جانب دہشتگردی کی جنگ پھر موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زلزلے اورسیلاب نے بھی شدیدنقصان پہنچایا لیکن الحمداللہ اِن تمام ترمصائب اور مشکلات کے باوجود آج پاکستان کی معیشت درست سمت گامزن ہوچکی ہے۔جتنی مشکلات اورمصائب پاکستان کودرپیش رہے شایدہی کسی اور ملک کواتنی مشکلات دیکھنی پڑیں اوریہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے علاوہ کوئی بھی ملک اِن تمام ترمشکلات میں مضبوط نہیں رہ سکتا۔مسلم لیگ ن کی حکومت کودوسال مکمل ہونے والے ہیں اورجتنے انقلابی اقدامات اِن دوسالوں میں ہوئے ہیں پاکستان کی تاریخ میں اِس کی مثال نہیں ملتی۔خصوصامعیشت کے حوالے سے وزیر اعظم محمد شہبازشریف کی کابینہ میں شامل وفاقی وزیر برائے خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے بھرپورکرداراداکیاجنکااعتراف عالمی ادارے بھی کررہے ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی معیشت نے انتہائی قلیل مدت میں رواں سال تقریبا4 % 3.0 کی GDP نمو کے ساتھ بہتری لائی۔صنعتیں دوبارہ بحال ہوچکی ہیں اور ترسیلات زر، ٹیکنالوجی کی برآمدات سے معیشت کو استحکام ملا۔اگربین الاقوامی تجارتی معاہدوں کی بات جائے تورواں سال پاکستان نے دوست ممالک سعودی عرب،ایران، ترکیہ،چین، آذر بائیجان،ملائیشیا سمیت دیگر ممالک سے بھی کامیاب معاہدے کئے۔ سعودی عرب کیساتھ دفاعی معاہدہ پاکستان اورسعودی عرب کا تاریخی انقلابی معاہدہ ہے جس کے مطابق ایک ملک پرحملہ دوسرے پربھی تصورکیاجائے گا۔ اِس کیساتھ ساتھ دونوں ممالک میں توانائی،زراعت اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی کام جاری ہے۔رواں ماہ ہی پاکستان کے ایکسپورٹ امپورٹ بینک نے سعودی ایگزم کے ساتھ ایک علیحدہ مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو)پر دستخط کیے تاکہ کریڈٹ کی سہولیات، تجارتی کریڈٹ انشورنس اور مالی ضمانتوں جیسے شعبوں پر ادارہ جاتی تعاون کو بڑھایاجائے۔اِسی طرح چین جوکہ پاکستان کاسدابہارعظیم دوست ہے کیساتھ بھی تجارتی تعلقات مزیدمضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ سی پیک کے منصوبے پربھی برق رفتاری سے کام جاری ہے۔رواں سال ہی پاکستان کے ایک اور ہمسائیہ برادردوست ایران کیساتھ بھی پاکستان کے تجارتی تعلقات مزیدمضبوط ہوئے اوردونوں ممالک دوطرفہ تجارت کودس ارب ڈلرتک لے جانے کیلئے کام کررہے ہیں۔ رواں سال ہی ملائشیا کیساتھ بھی تجارتی معاہدوں کے بعددوطرفہ تجارت پر کام جاری ہے خصوصاپاکستان ملائشیا کاگوشت کے حوالے سے بڑادرآمدی شراکت دار ہے اِس حوالے سے گزشتہ روزہی وزیر اعظم محمد شہبازشریف کی کمیٹی کا اعلی سطحی اجلاس منعقد ہوا جس کی مشترکہ صدارت وزیراعظم کے معاونِ خصوصی ہارون اختر خان اور وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے کی۔ اجلاس میں سرکاری و نجی شعبے کے اہم اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی اور ملائیشیا کو گوشت برآمدات میں درپیش چیلنجز، سفارشات اور مستقبل کے لائحہ عمل کا جائزہ لیا۔ اجلاس میں کمیٹی نے ملائیشیا کو 200 ملین امریکی ڈالر مالیت کا گوشت برآمد کرنے کا ہدف تجویز کیا۔ وفاقی وزیر جام کمال خان نے بتایا کہ نجی ایکسپورٹرز کے ساتھ مل کر ایک مثر بزنس ماڈل تیار کیا جا رہا ہے جس سے گوشت کی برآمدات کو بہتر اور تیز تر بنایا جا سکے گا۔انہوں نے پاکستان میں چرائی کے علاقوں کی بہتری، ایف ایم ڈی ویکسین لیبز کے قیام اور ایکسپورٹرز کے لیے خصوصی مراعات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات ملائیشین مارکیٹ تک رسائی کے لیے انتہائی اہم اور وقت کی ضرورت ہیں۔وزیراعظم کے معاونِ خصوصی ہارون اختر خان نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایات کی روشنی میں ایک جامع برآمدی حکمتِ عملی تیار کی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان بون لیس گوشت کی برآمد کے لیے مکمل طور پر تیار ہے اور عالمی معیار پر پورا اترتا ہے، جبکہ ہڈی والے گوشت کی برآمد کے لیے قابلِ عمل فریم ورک پر کام جاری ہے،تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ایک ڈرافٹ منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے پروسیسنگ سسٹمز، کولڈ چین انفراسٹرکچر اور ایکسپورٹ ریڈی میکانزم کی بہتری کو عالمی منڈیوں میں پاکستان کی مسابقت بڑھانے کیلئے ناگزیر قرار دیا۔جام کمال خان نے کہا کہ تیار کردہ بزنس ماڈل بہت جلد وزیراعظم کو پیش کیا جائے گا۔ یہ اقدام پاکستان کی برآمدات میں نمایاں اضافہ کرے گا اور حلال مارکیٹس میں نئے مواقع پیداکریگا۔*قارئین کرام!،بین الاقوامی ممالک کیساتھ تجارتی معادوں ومعیشت کے حوالے سے جہاں حکومتی اقدامات قابل تحسین ہیں وہیں ملکی سطح پرتاجروں کااعتماداورانڈسٹری بحالی کے حوالے سے مزیداقدامات جاری ہیں اورجس تندوہی سے معاشی اعشارئیے مضبوط ہورہے ہیں بہت جلدمعاشی بحرانوں کامکمل خاتمہ ہوجائے گا۔
حکومتی اقدامات اور معیشت کی مضبوطی

