Site icon Daily Pakistan

خطوط میں زہر کیوں !!

خطوط خیر خیریت گلے شکوے،پیار محبت میں لکھے جاتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حالات کیسے ہیں کیا ہورہا ہے؟ ہم لکھاری لوگ خوش ہیں کہ ادب خطوط کی شکل میں واپس لوٹ آیا ہے۔ پھر سے خط لکھنے اور پڑھنے کا شوق پیدا ہو چلا ہے۔کچھ جیلس لوگوں نے خطوط میں زہر اور دھمکیاں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جو قابل مذمت ہے۔ کاکول میں چیف آف آرمی نے کرکٹرز کیساتھ افطار ڈنر کیا سبھی جانتے ہیں کرکٹ کھیل نہیں ہے ،یہ امریکن ریسلنگ کی طرح انٹرٹینمنٹ ہے۔ کاش جنرل صاحب ہاکی اورفٹبال کے کھلاڑیوں کو بھی بلاتے تاکہ انہیں حوصلہ ملتا۔یہ تاریخ ہے کہ کرکٹ کے ورلڈکپ جیتے نہیں، جتوائے جاتے ہیں۔ہیرو بنتے نہیں بنائے جاتے ہیں۔ ابھی میڈیا پر خطوط کی بریکنگ نیوز چل رہی ہیں ۔لہٰذا جنرل صاحب افطاری پر وکلا کے نمائندے بلاتے لکھاریوں کو بلاتے ان سے خطوط کے بارے میں صلح مشورہ کرتے توکسی نتیجہ پر پہنچ جاتے، خطوط کی وجہ سے اٹھی گرد بیٹھ جاتی۔ کرکٹ میں صرف محسن نقوی کو ہی بلا لیتے اور پوچھتے یہ آپ پر کس نے تین قومی سطح کی ذمہ داریاں سونپ رکھی ہیں۔ ان سے آپ انصاف کیسے کر رہے ہو ؟ دوسری طرف قوم کو انصاف دینے والے ججز آج خود انصاف کی تلاش میں ہیں۔ہم تو سنتے آئے تھے کہ دنیا میں سب سے طاقتور ججز ہوتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے لیکن یہ ججز تو محبوب اور محب کی خوبیوں کے مالک نکلے۔پرانے وقتوں میں خط تو عاشق اپنے محبوب کو لکھ کر کبوتر کے ذریعے بھیجا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ججز کیس سنتے تھے بولتے نہیں تھے ، کسی کو بے توقیر نہیں کرتے تھے صرف آڈر لکھتے تھے۔ مگر آج کے ججز کچھ تقریر کر کے اور کچھ خط لکھ کر شکایات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔سب جانتے ہیں جن سے موجودہ دور کے ججز کو شکایت ہے وہ بھی انہی کی طرح سرکاری ملازم ہیں قومی خزانے سے منسلک ہیں البتہ دونوں کی ذمہ داریاں نیچر آف جاب مختلف ہے۔ ججز کا کام کورٹ میں مقدمہ سننے کے بعد فیصلہ لکھ دینا ہے۔ ججز کے فیصلوں سے انسان پھانسی لگ جاتے ہیں۔ جیسے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ۔بھٹو کیس میں ججز نے قانون کے مطابق نہیں کسی کے حکم پر بھٹو کو پھانسی دی تھی۔اس پھانسی کو جوڈیشل مرڈر کانام دیا گیا۔ اب صدارتی ریفرنس نے سچ ثابت کردیا ہے کہ بھٹو کا جوڈیشل مرڈر ہوا تھا۔ ایسے فیصلہ کرنے سے ججز پھر بھی باز نہ آئے اور چیف جسٹس وزیر اعظموں کو گھر بھیجتے رہے ۔ جتنے غلط فیصلے ہماری جوڈیشری نے کئے ہیں شائد ہی دنیا کی کسی عدالت کے ججز نے اتنے غلط فیصلے کئے ہونگے ۔ اب ان کے غلط فیصلوں پر کتابوں کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ ہماری جوڈیشری کا نمبر کارکردگی کے حوالے سے دنیا میں126 نمبر تھا اب تو آخری نمبر پر ہیں ۔ کہا جاتا ہے اس سے سب واقف ہیں کہ ججز اور سیکورٹی ایجنسیوں کا چولی دامن کا ساتھ ہمیشہ سے ہے۔ جب ججز بنائے جاتے ہیں تو ان ایجنسیوں کی رضامندی شامل ہوتی ہے۔ یہ ادارے بھی سرکاری ادارے ہیں ان میں کام کرنے والے اسی کام کی تنخواہ لیتے ہیں۔ یہ دونوں ملکر ایک دوسرے کے کام آتے اور کرتے ہیں۔ سب سمجھتے ہیں لہٰذا سب چپ ہیں۔ جسٹس صدیقی کے بعد اب یہ نیا سلسلہ خطوط لکھنے اور اب تو ساتھ پوڈر ڈالنے کا شروع ہے۔ججز نے لکھا ہے ان حالات میں ہم کام نہیں کر سکتے۔ججز نے خط لکھنے کا راستہ کیوں اپنایا ہے یہ سمجھ سے باہر ہے جب کہ ججز کے پاس لکھنے کی طاقت ہے۔ آپ کے لکھنے سے تو ملزم پھانسی پر چڑھ جاتا ہے۔ ججز توہینِ عدالت میں جیل بھیج دیتا ہے۔ مگر کمال ہے آج کے ججز ان افراد کے دباو¿ ڈالنے پر مرضی کے فیصلے لکھوانے پر یہ انہیں سزا دینے سے کیوں قاصر ہیں ۔ جو کیمرے لگاتا ہے جو رشتہ داروں کو قید کرتا ہے جو ٹاچرکرتا ہے۔ جو فیصلے اپنی مرضی کے نہیں کرنے دیتا۔یہ ججز اپنے قلم سے سزا ایسے لوگوں کو کیوں نہیں دیتے، کہتے ہیں کئی یہ وہ سرکاری ملازم تو نہیں جنھوں نے آپ کو جج بنانے میں آپکی مدد کی ہو سفارش کی ہو۔ آپ کے دوست اورہم نوالہ ہم پیالہ ہوں ۔ جس طرح سے ہم حج کے موقع پر شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں وہی شیطان ان کو پیسے بنانے کے طریقے بتاتا ہے، رشوت لینی سکھاتا ہے۔اس سے پہلے یہ عازمین شیطان کے پکے دوست ساتھی ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک ججز نے خط لکھ کر اچھا کیا ہے۔ ججز کو قانون کے مطابق فیصلے لکھنے چاہئے۔ انہیں اللہ کو جواب بھی دینا ہے۔ میرے پچھلے کالم پر ایک میرے ساتھی بھائی نے تبصرہ کچھ یوں کیا ہے۔ حالات کے مطابق خط بہت اہم اور وقت کی ضرورت تھا۔خط کا پہلا مقصد میرے نزدیک پورا ہو گیا ہے کہ سیاست تجارت اور عدالتی امور میںمداخلت کاروں کی ضد کہ مداخلت ختم نہیں کرنی پرمکالمہ شروع ھو چکا ہے جو اس خط کی پہلی کامیابی ہے۔جو باتیں پہلے اشاروں میں اور چند وکیل یا چند سیاست دان سرگوشیوں میں کیا کرتے تھے وہ اب کھلے عام چوکوں چوراں میں ھونے لگی ہیں ۔لگتا پاکستان کچھوے کی رفتار سے ہی سہی ترقی کی طرف ارتقائی مراحل میں داخل ھوا چاہتا ہے۔جو بحث اور ایشوز ستر سال پہلے مکالمہ ھوکر ختم ھو جانے چاہیے تھے وہ اب زیر بحث آئے ہیں۔ہم کتنے پیچھے ہیں۔چلو دیر اید درست آید۔مداخلت کاروں نے ابھی تک مداخلت سے انکار نہیں کیا۔سوال یہ بھی ہے کہ کیوں۔؟ اس کا جواب جناب والا بابا کرموں دے چکا ہے وہ کہتا ہے کہ اگر ججز نوکری پیشہ ہیں تو وہ بھی تو نوکری پیشہ ہیں۔جو انہیں کام سونپا جاتا ہے وہ کررہے ہیں۔ ہمیں اور انہیں مل کرملک کو چلانا ہے ۔ یہ خوف نفرت نہ پھیلائیں ایسا ہی نظام چلنے دیں۔وہ اپنا کام کریں ہم اپنا کام کریں گے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ بطور مسلمان نہ سہی انسان کے ہی بتائیں کہ جو ہمارے عام آدمی کے کرتوت ہیں کیا وہ انسانوں والے ہیں۔ کیمیکل ملا دودھ ہم فروخت کرتے ہیں۔ اسی طرح مردہ مرغیاں، گدھے اور کتے کا گوشت ہم کھلاتے ہیں۔ جعلی ادویات ہم بناتے ہیں، کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ ہم کرتے ہیں۔ راشن فوٹو بنا کر تقسیم ہم کرتے ہیں۔ جب کہ کہا جاتا ہے ۔ ہم دیوالیہ ہونے نہیں جا رہے بلکہ ہم حلال حرام، اخلاقیات، انصاف انسانیت میں دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ کہا جاتاہے مشکل فیصلہ غریب کی سوکھی روٹی کو آدھا کرنا نہیں بلکہ امیر کے پراٹھے پر لگے گھی کی مقدار کو کم کرنا ہے۔ اس ملک کو اگر ٹھیک کرنا ہے اللہ کے کیمروں سے ڈرنا ہے۔
اٹھ شاہ حسیناں ویکھ لے،ساڈے بیڈ روماں دا حال
ہر پاسے لگے کیمرے،بے شرمی پائے دھمال
ساڈے جج نمانے کوکدے،تے کردے پئے فریاد
سانوں تن بچانے پے گئے،اساں کی دینا انصاف

Exit mobile version