Site icon Daily Pakistan

خلیل صاحب رخصت ہوئے

میں خلیل الرحمان سے کبھی نہیں ملا ، نہ کبھی دیکھا ہے، ان کے بارے میں صرف اتنا علم تھا کہ وہ ہفت روزہ اردو ٹائمز نیویارک کے پبلشر اور ایڈیٹر ہیں ۔اور یہ بھی کہ وہ امریکہ میں اردو صحافت اور ہفت روزہ اردو اخبار کے مقبول رجحان کے بانی ہیں۔ سال 2021 میں ہفت روزہ اردو ٹائمز میں میرے کالم بھی شائع ہونے لگے۔رابطہ انجم خلیل سے رہتا، جب تک ای میل اور واٹس ایپ پر تحریری مواد کی ترسیل ہوتی رہی ، تب تک میں انجم خلیل کو "صاحب ” ہی خیال کرتا رہا ۔پھر ایک بار جب فون پر بات ہوئی تو علم ہوا کہ وہ اردو زبان و ادب کی اعلی تعلیم یافتہ ، عمدہ ادبی ذوق رکھنے والی ، حیدرآباد کی تہذیبی نفاست اور شائستگی کی حامل خاتون ہیں اور یہ کہ وہ اخبار کے پبلشر اور ایڈیٹر خلیل الرحمان کی اہلیہ محترمہ بھی ہیں۔ خلیل صاحب اور ان کی اردو دان اہلیہ انجم خلیل ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اردو زبان کے سب سے بڑے ہفتہ وار اخبار اردو ٹائمز کو یکساں توجہ ، محنت اور ایک جیسے جنون کے ساتھ امریکہ میں بسنے والی اردو کمیونٹی کے مزاج کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوئے تھے ۔مجھے اس بات کا علم بھی نہیں تھا کہ امریکہ میں اردو صحافت کا بانی اور فاتح میرے اپنے شہر اسلام آباد سے تعلق رکھتا ہے۔یہ بات مجھے عائشہ مسعود نے بتائی کہ خلیل الرحمان اسلام آباد کے مرکزی علاقے میلوڈی میں رہا کرتے تھے۔ خلیل صاحب کی رحلت کی خبر بھی عائشہ مسعود کی فیس بک پوسٹ سے ملی ۔انہوں نے اپنے اچھے دوست کی وفات کی اطلاع دیتے ہوئے ان کے ساتھ وابستہ یادوں کو شیئر کیا تھا۔اسلام آباد میں نامور شاعر حسن عباس رضا بھی خلیل صاحب کے دوستوں میں شامل ہیں ، انہوں نے بتایا کہ وہ دس سال تک نیویارک میں مقیم رہے تھے اور وہاں خلیل صاحب کی محفلوں کا لازمی حصہ ہوا کرتے تھے۔اسلام آباد میں خلیل الرحمان کے سب سے قریبی اور بچپن کے دوست اور نامور ادیب وحید رانا نے جس محبت بھرے دل کے ساتھ خلیل صاحب کے چلے جانے پر انہیں یاد کیا ،وہ ایک اچھے اور سچے دوست کی یاد نگاری اور الم شماری کا بہترین مرقع قیاس کیا جا سکتا ہے۔وحید رانا خلیل الرحمان کے بچپن کے دوست ہیں، ابتدائی اسکول سے لے کر انٹرمیڈیٹ تک وہ ساتھ ساتھ پڑھتے رہے۔پھر اسی کی دہائی میں پاکستان کے اندر بننے والے ذہنی ماحول نے ایک حساس، روشن خیال اور متجسس نوجوان کو ترک وطن کی راہ دکھائی۔ترک وطن ایک معمولی اور یک رخا تجربہ نہیں ہوتا، اس پر اٹھنے والے اخراجات صرف مادی نہیں ہوتے ،اس پر سب سے زیادہ صرف ہونے والا سرمایہ دل و دماغ کا ہوتا ہے ۔خلیل صاحب ان سارے تجربات سے گزرے اور ایک نئے ملک و معاشرے کا بامراد حصہ بننے میں کامیاب ہوئے۔ وحید رانا صاحب نے بتایا کہ امریکہ میں ایک ایسے اردو اخبار کی اشاعت ان کا خواب تھا،جس میں دیگر کے علاوہ خود ان کے وطن کے بارے میں خبریں مثبت زاویے سے پیش کی جائیں۔وہ اس بارے میں ہر وقت سوچتے اور دوستوں سے باتیں کرتے رہتے تھے ۔پھر ایک دن وہ بھی آیا جب ان کا یہ خواب حقیقت کا روپ دھار کر مقبولیت سے آگے بڑھتا ہوا محبوبیت کے دائرے میں داخل ہو گیا۔ خلیل صاحب نے امریکہ کو اپنا دوسرا وطن بناکر اردو زبان و ادب سے اپنے شغف اور صحافت کے شوق کو یک جا کرتے ہوئے امریکہ کے کثیر الاشاعت اردو ہفت روزہ اخبار اردو ٹائمز نیویارک کا اجرا کیا تھا۔ اس ہفت روزہ اخبار کی شہرت اور تاثیر نے امریکہ کے علاوہ کینیڈا اور برطانیہ تک کے اردو دان طبقے کو اپنا اسیر بنا رکھا ہے ۔ان کے اس شوق اور مشن میں ان کی محترمہ اہلیہ انجم خلیل ان کے ساتھ تھیں۔انجم خلیل اردو میں اعلی تعلیم یافتہ ، مہذب، ارفع ادبی ذوق کی حامل ، اور ہفت روزہ اردو ٹائمز نیویارک کی ادارت و اشاعت سمیت زندگی کے ہر معاملے میں ان کی دم ساز ، معاون اور طاقت رہیں ہیں۔امریکہ کی پاکستانی کمیونٹی کو اردو زبان و صحافت کی ڈوری میں پرو کر رکھنے والے خلیل الرحمان کی رحلت کی خبر نے مجھے اداس کردیا۔ ان کے لیے مغفرت کی دعائیں،اب وہ اس خدا کے پاس ہیں جو مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔محترمہ انجم خلیل کے لیے صبر ، بہت زیادہ حوصلے اور ہمت و قلبی طاقت کی دعا ۔ خلیل صاحب امریکہ میں اردو ادب کے حوالے سے ہر سرگرمی کا پرجوش حصہ ہوا کرتےتھے ،کوئی کانفرنس ہو ، یا کوئی مشاعرہ ، کسی ادیب کی امریکہ آمد پر پذیرائی ہو ، خلیل صاحب کا کردار بامعنی اور شرکت لازمی ہوا کرتی تھی ۔امریکہ کی اردو بولنے سمجھنے اور لکھنے والی کمیونٹی میں انہیں ایک مقام حاصل تھا۔اردو ٹائمز نیویارک گویا ایک ہنستے بستے گھر کے ڈراینگ روم ، اوطاق یا بیٹھک کی طرح سے تھا اور ہے ،کہ جہاں بیٹھ کر آپ سب کچھ جان سکتے ہیں۔ اس پررونق اوطاق اور بیٹھک کو ہمیشہ آباد اور پررونق بنانے کے لیے محترمہ انجم خلیل کو پہلے سے زیادہ عزم و ہمت اور حوصلے کے ساتھ مصروف عمل رہنا ہو گا، کیونکہ خلیل صاحب رخصت ہوئے ہیں ، اردو ٹائمز نیویارک تو ان کے خواب کی تعبیر کی صورت ہمیشہ ان کی توجہ کا طلبگار رہے گا۔

Exit mobile version