خواجہ رفیق شہید تحریک پاکستان کے بڑے سرگرم،مخلص اور جرات مند کارکن تھے جنہوں نے امرتسر میں تحریک پاکستان کے دوران عظیم خدمات انجام دیں۔ خواجہ رفیق شہید، راقم الحروف اور محترم مولوی سراج الدین پال ایڈووکیٹ کے تین صاحبزادوںمحترم عزالدین پال، محترم ذکی الدین پال اور محترم تقی الدین پال نے مسلم لیگ امرتسرکے سربراہ شیخ صادق حسن کی قیادت میں1945-46 کے انتخابات کے دوران پرجوش طریقے سے کام کیا اور انتخابات میں مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی کی راہ ہموارکی۔ قیام پاکستان کے بعد خواجہ رفیق شہید ہجرت کر کے لاہور آگئے اور لاہور میں اپنی شہادت تک عوام کی فلاح و بہبود کےلئے سرگرمی سے کام کرتے رہے۔ حال ہی میں مجھے سپیشل سیکرٹری ہوم محترم فضل الرحمن صاحب کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق صاحب سے ملاقات ہوئی۔ فضل الرحمن صاحب نماز پڑھنے کےلئے سیکرٹریٹ کی مسجد میں گئے ہوئے تھے ۔ میں ایک صوفے پر بیٹھا تھا توخواجہ سلمان رفیق اپنے سٹاف آفیسر کے ساتھ کمرے میں تشریف لائے اور میرے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا، کہ کیا آپ مجھے جانتے ہیں اور میں کون ہوں ۔میں نے جواب دیا کہ آپ سلمان رفیق ہیں اور خواجہ رفیق شہید کے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔ آپ کی شکل و صورت خواجہ رفیق شہید صاحب سے بہت ملتی ہے تو کہنے لگے میرے بڑے بھائی خواجہ سعد رفیق صاحب والد محترم سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ان کے چہرے کی رنگت خواجہ رفیق مرحوم و مغفور سے ملتی ہے لیکن آپ کو میں خواجہ رفیق شہید کی وجہ سے جانتا ہوں۔ اب کافی عرصہ ہوا میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے تو والٹن میں باب پاکستان کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ سعد رفیق دونوں موجود تھے لیکن ان سے میری علیک سلیک نہیں ہوئی۔ قیام پاکستان سے پہلے شیخ صادق حسن مرحوم و مغفور مسلم لیگ امرتسر کے سربراہ تھے۔ 1945-46 کے انتخابات میں تحریک پاکستان کے کارکنوں نے مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی کےلئے بھرپور خدمات انجام دیں۔ سبھی نے انتخابات میں مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی کےلئے امرتسر شہر اور گردونواح کے دیہاتی علاقوں کے پولنگ سٹیشنوں پررائے دہندگان کو مسلم لیگی امیدواروں کو ووٹ دینے کےلئے رام کیا۔ اس وقت پنجاب اسمبلی میں مسلمانوں کےلئے 86 نشستیںمخصوص تھیں۔ مسلم لیگ نے ان میں سے 79 نشستیں حاصل کیں اور مسلم لیگ پنجاب اسمبلی میں واحد اکثریتی پارٹی تھی لیکن انگریزگورنر فرانسس مودی نے مسلم لیگ کے پارلیمانی لیڈر نواب افتخار حسین ممدوٹ کو کابینہ بنانے کی دعوت دینے کی بجائے گورنر راج لگا دیا۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ کانگریسی رہنما مولانا ابوالکلام آزاد دہلی سے بذریعہ طیارہ لاہور آئے اور کانگریس کے صدر اکالی پارٹی کے سکھ رہنما تاراسنگھ اور یونی نیسٹ پارٹی کے سربراہ ملک خضر حیات ٹوانہ سے ملاقات کر کے پنجاب میں یونی نیسٹ پارٹی کی کابینہ بنوا دی جس کے سربراہ ملک خضر حیات ٹوانہ تھے۔ انہوں نے فروری کے اوائل میں وزارت سنبھالی تو امرتسر میں مسلم لیگی کارکنوں اور شہر کے مسلمانوں نے خضر حیات ٹوانہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع کر دیئے۔ مظاہروں کے دوران خضر حیات کے خلاف زبردست نعرے بازی ہوتی اور ان کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جاتا۔ اس کے ساتھ ہی لاہور میں بھی مظاہرے ہوئے ان کے نتیجے میں فروری کے اختتام پر خضر حیات ٹوانہ کو مستعفی ہونا پڑا۔ اس کے بعد مسلم لیگ کے پارلیمانی لیڈر کوحکومت بنانے کی دعوت دینے کی بجائے گورنر راج لگا دیا گیا۔ گورنر کی برترفی کے بعد نواب افتخار حسین ممدوٹ نے حکومت بنائی۔ انہوں نے وزارت سنبھالتے ہی علامہ محمد اسد (آسٹریا کے یہودی النسل لیو پولڈ ویز) کو پنجاب میں احیائے اسلام کےلئے کام کرنے کی دعوت دی۔ انہیں یہاں بلایا اور کہا کہ آپ تحریک پاکستان کے دوران انگریزی زبان میں بے شمار مضامین لکھتے رہے اب وقت آگیا ہے کہ نفاذ اسلام کےلئے عملی اقدامات کیے جائیں۔ چنانچہ انہیں ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز کے برابر عہدہ سونپاگیا ۔ راقم الحروف ، غلام حیدر وائن اور امرتسر کے بہت سے مسلمان 13-14 اگست کی درمیانی رات کو بلوچ رجمنٹ کی نگرانی میںٹرینوں کے ذریعے لاہور منتقل ہوئے۔ 13-14 اگست کی درمیانی رات کو کپورتھلہ، نابہ، پٹیالہ کی سکھ ریاستوں کی پولیس اور نیم فوجی دستوں اور سکھوں کے مسلح جتھوں نے چاروں طرف سے امرتسر پر حملہ کیا۔ پہلی ٹرین امرتسر سے لاہور پہنچی تو لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے والٹن میں عارضی کیمپ قائم کیا۔دوسری ٹرین ایک بجے امرتسر سے لاہور روانہ ہوئی۔ آدھی رات کے وقت ٹھیک بارہ بجے مسلمانوں کی کثیر تعداد امرتسر ریلوے اسٹیشن پر موجود تھی۔ میرے پاس ریڈیو سیٹ موجود تھا جو میں آن کر رکھا تھا ۔ عین بارہ بجے آل انڈیا ریڈیو لاہورسے اعلان ہوا کہ یہ آل انڈیا ریڈیو ہے۔اب اگلے اعلان کا انتظار فرمائیے۔ اس کے بعد اناو¿نسر مسعود علی ہمدانی نے اعلان کیا کہ یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے اب آ پ مسعود علی کی زبانی خبریں سنیں گے۔ انہو ں نے قیام پاکستان کا اعلان کیا۔ لوگوں نے بہت زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ ایک بجے ٹرین لاہور روانہ ہوئی تو ہربنس پورہ سے منٹگمری (ساہیوال)روانہ کر دی۔ علی الصبح نماز فجر سے پہلے ٹرین منٹگمری پہنچ گئی۔ غلام حیدر وائن پہلی ٹرین کے ذریعے والٹن پہنچے۔ قیام پاکستان کے وقت مسلم لیگ کے صدر شیخ صادق حسن ، راولپنڈی سے آگئے۔ ان کے صاحبزادے شیخ مسعود صادق مغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ رہے۔ ان سے بھی اکثر ملاقات رہتی تھی۔ بہت محبت کرنےوالے اور خوش مزاج انسان تھے۔ 56 کے اوائل میں، میںنے اخبارات میں کام کرنا شروع کیا۔ راقم الحروف کو منٹو پارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے زیر اہتمام مسلمانان ہند کے عظیم اجتماع منعقدہ 21,22,23 مارچ 1940 میں شرکت کا موقع ملا۔ میں ذکر کر رہاتھا کہ خواجہ رفیق بہت جرا¿ت مند، پرجوش اور دلیر انسان تھے۔ انہوں نے تحریک پاکستان کے دوران خوب کام کیا۔ سیاسی سرگرمیوں میں بہت سرگرم رہتے تھے۔ وہ کبھی کبھار اپنا بیان لے کر اخبارات کے دفاتر میں تشریف لایا کرتے تھے۔ میں جب پروگریسو پیپر (امروز و پاکستان ٹائمزشائع کرنےوالا ادارہ) میں کام کر رہا تھا تو خواجہ رفیق اکثر تشریف لایا کرتے تھے۔ خواجہ رفیق نے کچھ عرصہ عوامی لیگ اور نوابزادہ نصراللہ خان کے ساتھ بھی کام کیا۔ ایک بار اخبار کے دفتر میں تشریف لائے تو میں ایڈیٹر خواجہ ایم آصف کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔خواجہ صاحب کی آمد کی اطلاع ہوئی تو میںنے انہیں خواجہ آصف سے ملوایا۔ خواجہ آصف انہیں مل کر بہت خوش ہوئے اور تقریباً آدھ گھنٹے تک خواجہ رفیق سے سیاسی معاملات پر بات چیت ہوتی رہی۔6 فروری 1966 کو گلبرگ کے مین بلیوارڈ میں چودھری محمد علی سابق وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کا اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں شیخ مجیب الرحمن کو پے رول پر رہا کرنے کااعلان ہوا تو خان عبدالولی خان، میاں ممتاز دولتانہ نے ان کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا۔ اس اجلاس میںخواجہ رفیق بھی شریک ہوئے۔ ممتاز صحافی محترم عبداللہ بٹ صاحب اس کانفرنس کے کوآرڈینیٹر تھے۔ خواجہ رفیق ملک کے بعض ممتازسیاسی رہنماو¿ں کے ساتھ کراچی میں سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کے ہاں اجلاس میں شریک تھے ۔ اس اجلاس میں چودھری غلام محمد کراچی، جسٹس ریٹائرڈذیڈ ایچ لاری،سردار عطاءاللہ مینگل،میاں محمود علی قصوری بھی شریک تھے۔ ایوب خان کی ہدایت پر ان رہنماو¿ں کے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہوا۔ ایوب خان نے میاں مظفر الدین کوسپیشل مجسٹریٹ مقرر کیا۔ وہ ملتان میں اس مقدمہ کی سماعت کرتے تھے۔ اس دوران بھی خواجہ رفیق اور دیگر رہنماو¿ں کے ساتھ ملاقات ہوتی رہی۔ جب 1977 میں پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) نے بھٹو کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی تو خواجہ رفیق بھی اس میں بہت سرگرمی سے شریک ہوتے تھے۔ ملک حامد سرفراز اور خواجہ رفیق شیخ مجیب کی عوامی لیگ میں بھی کام کرتے رہے۔ اسی تحریک کے دوران خواجہ رفیق بھٹو کے خلاف نعروں والا بینر کے ساتھ تانگے پر سوار ہو کرگھر جا رہے تھے تو پنجاب اسمبلی کے عقب میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج برائے خواتین کے سامنے کوپر روڈپر ایک نوجوان نے ان سے بینر چھیننے کی کوشش کی ۔ اس دوران اس نوجوان نے فائرنگ کر دی۔ جس سے خواجہ رفیق شدید زخمی ہوگئے۔ وہ زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے