Site icon Daily Pakistan

دہشتگردی کے خاتمے کیلئے قومی کاوشیں اور درکار سمت

پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے جس نہ ختم ہونے والے چیلنج کا سامنا کر رہا ہے وہ محض سکیورٹی مسئلہ نہیں بلکہ ایک پیچیدہ، علاقائی و عالمی معرکہ ہے جس نے ریاست، معیشت، اداروں اور معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ 70ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کی قربانیاں اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف دنیا کی سب سے طویل اور کٹھن جنگ لڑی ہے۔دہشت گردی کی موجودہ شکل کی بنیاد 1980 کی دہائی میں اس وقت رکھی گئی جب افغان جنگ کے نتیجے میں پاکستان عالمی قوتوں کی پراکسیوں کا مرکز بنا۔ لاکھوں مہاجرین کی آمد، اسلحے اور غیر ریاستی گروہوں کی کھلی سرگرمیوں نے داخلی ڈھانچے میں ایسی دراڑیں ڈال دیں جو برسوں میں بھی مکمل نہ بھر سکیں۔ بعد ازاں نائن الیون کے بعد افغانستان میں نئی جنگ اور وہاں پیدا ہونے والا سیاسی خلا خطے میں مزید بے یقینی کا باعث بنا، جس سے شدت پسند گروہوں کو منظم ہونے کے مواقع ملے۔
پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف ہمہ جہتی اقدامات کیے۔ آپریشن راہِ راست، راہِ نجات، ضربِ عضب اور ردالفساد نے دہشت گرد نیٹ ورکس کو توڑا، قبائلی علاقوں میں ریاستی رٹ بحال کی اور دہشت گردی کی شدت میں نمایاں کمی لائی۔ اس کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان نے سویلین سطح پر قانونی اصلاحات، نفرت انگیز مواد کے انسداد، مدارس کی رجسٹریشن، اور مالی معاونت کے خلاف اقدامات کی سمت متعین کی۔ FATFپلیٹ فارم پر پاکستان کی سنجیدہ کوششوں نے عالمی سطح پر مالیاتی نظام کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔تاہم یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ دہشت گردی صرف فوجی کارروائی سے ختم نہیں ہوتی۔ انتہا پسندی ذہنی و فکری کیفیت ہے جو اس وقت پنپتی ہے جب معاشرے میں عدم مساوات، معاشی بدحالی، جہالت، سماجی تقسیم اور ادارہ جاتی کمزوریاں موجود ہوں۔ ریاستی اداروں کی مضبوطی، قانون کی بالادستی، شفاف طرزِ حکمرانی اور سیاسی استحکام دراصل وہ ستون ہیں جن پر دیرپا امن کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے۔سرحدی سکیورٹی اور علاقائی تعاون بھی دہشت گردی کے خاتمے کا اہم حصہ ہیں۔ افغانستان میں بدستور جاری غیر یقینی صورتِ حال نے سرحدی انتظامات کو پیچیدہ رکھا ہے۔ پاکستان نے سرحدی باڑ، انٹیلی جنس تعاون اور بارڈر مینجمنٹ کے ذریعے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے، مگر علاقائی پراکسیوں اور بیرونی مداخلت نے چیلنج کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ اس لیے معاشی و سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ مثر سفارت کاری بھی ناگزیر ہے۔ملک میں پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو جدید، متوازن اور تحقیق پر مبنی تعلیم فراہم کی جائے۔ نفرت انگیز بیانیے کا خاتمہ، معاشی مواقع کی فراہمی، اور سماجی ناانصافی کا مداوا وہ اقدامات ہیں جو انتہا پسندی کے فکری سرچشموں کو خشک کر سکتے ہیں۔ قومی اتحاد، سول و عسکری ہم آہنگی اور نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد ہی پاکستان کو ایک مضبوط اور باوقار ریاست کے طور پر مستحکم کر سکتا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی ایک ادارے یا حکومت کی نہیں، پوری قوم کی مشترکہ جدوجہد ہے۔ پاکستان نے اس سفر میں ناقابلِ فراموش قربانیاں دی ہیں، اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امن کے قیام کے لیے فکری مزاحمت، مضبوط ادارے، معاشرتی ہم آہنگی اور معاشی استحکام بنیادی کردار رکھتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اور قوم اپنی اجتماعی حکمتِ عملی کو مزید موثر، ہم آہنگ اور طویل مدتی بنائیں کیونکہ دہشت گردی کا خاتمہ محض ہتھیار سے نہیں بلکہ مضبوط فکر، عزم اور بہتر طرزِ حکمرانی سے ممکن ہے۔

Exit mobile version