Site icon Daily Pakistan

ربا کدی نہ پین وچھوڑے

گزشتہ سے پیوستہ
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم قرآن نہیں پڑھتے علماحضرات نے سلیس ترجمے کے ساتھ مطالب اور معنی بھی بیان کر دیے تاکہ اللہ نے جو باتیں انسانوں کے ساتھ کی ہیں انہیں سمجھنے میں آسانی ہو عربی اگرسمجھ نہیں آتی تو اردو ترجمہ آسانیاں پیدا کرتا ہے اللہ نے انسان کو تخلیق کیا اور اس میں معاشرتی زندگی بھی عطا فرمائی کرم یہ کیا کہ اس معاشرتی زندگی کو گزارنے کے اصول بھی بتا دیے تاکہ زندگی آسانیوں اور کامیابیوں سے گزر سکے اس کے برعکس ہم نے خود کو رسم و رواج کی زنجیر میں جکڑ رکھا ہے عورت اور مرد کے معاشرے میں کئی رشتے ہیں ماں باپ کے ساتھ ساتھ کئی دیگر رشتے انکے مقامات اور تعظیم بیان ہو چکی لیکن ہم ایک دوسرے پر حکمرانی کرنے کو کامیابی سمجھتے ہیں مرد چاہتا ہے بیوی بے زبان جانور کی طرح گھر میں رہے اور بیوی چاہتی ہے کہ اسکے امور خانہ داری سے لیکر دیگر معاشرتی امور میں خاوند قطعی طور پر دخل انداز نہ ہو وہ چاہیں تو ایک دوسرے کی زندگی کے امور پر مشاورت کر لیں ورنہ ذاتی حقوق کی آڑ میں آزاد پنچھی بنے رہیں آجکل حقوق حاصل کرنے اور ان پر بغیر مداخلت اپنی خواہش کے مطابق عمل کرنے کی سوچ عروج پر ہے ہر شعبہ زندگی اس سوچ سے متاثر ہے حقوق کے ساتھ فرائض بھی ادا کرنے ہوتے ہیں اخبار میں ایک خبر فوٹو کے ساتھ چھپی شمال مشرقی انگلینڈ کے ایک شہر میں پروٹسٹنٹ ریلی تھی اس کے اختتام پر فٹ پاتھ پر کچرا جمع ہو گیا اس شہر کے رہنے والوں کی اکثریت نے وہ کچرا اٹھا کر بڑے بڑے تھیلوں میں ڈالا اس شہر کے مخصوص علاقے اور فضا کو صاف ستھرا بنا دیا انہوں نے کارپولیشن کے صفائی پر مامور اسٹاف کا انتظار نہیں کیا بلکہ اچھے اور زمہ دار شہری ہونے کے ناطے احساس خیال کو عملی جامہ پہنایا کیا یہ احساس ہم میں موجود ہے کہ ہم معاشرے میں زمہ دار فرد کے طور پر پہچانے جائیں ہم حقوق کے مطالبے کے ساتھ فرائض ادا کرنے میں بھی مستعد ہوں میرے خیال میں انفرادی اور اجتماعی طور پرہم غیر زمہ دار شہری ہیں جلسے جلوس ہوں تو توڑ پھوڑ ضروری سمجھی جاتی ہے ہم یہ نہیں سمجھتے کہ شہر اور ملک ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے خوبصورت بنائے جاتے ہیں ہم جذبات سے مغلوب ہو کر شہر اور ملک کی املاک کا نقصان کرتے ہیں ہم میں تربیت کی کمی کی وجہ سے اچھی سوچ پیدا نہیں ہوتی اکثر منفی سوچ اور عمل کا مظاہرہ ہوتا ہے حال ہی میں ایک خبر نظر سے گزری کہ دو پوتیوں نے اپنے غیر اخلاقی تعلقات چھپانے کےلئے اپنی دادی جو اس راز سے واقف تھی اور دونوں کو باز رہنے کی ہدایت کرتی تھی اسے موت کے گھاٹ اتار دیا اب وہ دونوں پولیس کی تحویل میں ہیں اور تفتیش جاری ہے ان امور کے نتائج آپ خود سوچ سکتے ہیں بے مقصد ترقی کی دوڑ نے بے لگام آزادی کو جنم دیا ہے رشتوں کا تقدس دم توڑ رہاہے اکثر خبریں چھپتی ہیں کہ سوتیلے باپ نے بیٹیوں کی عزت نفسانی خواہشات سے مغلوب ہو کر خاک میں ملا دی جائیداد کے حصول کے لیے بیٹا باپ کو قتل کر دیتا ہے یہ سب جہالت کی باتیں ہیں جزبات سے مغلوب ہو کر حقوق کے حصول کےلئے غیر اخلاقی اور غیر قانونی اقدامات مذہب سے دوری اور مغربی اقدار کی بے مقصد پیروی ہمارے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے اللہ کے فضل و کرم سے ہم مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے والدین عزیز و اقارب مسلمان ہیں اللہ نے واضح زندگی گزارنے کےلئے کتاب عطا فرمائی معاشرتی اصول واضح کر دیے لیکن ہم اپنی سچی اور کھری تعلیم کو چھوڑ کر مغربی طرز زندگی اپنانے کی طرف مائل رہتے ہیں ہمارے ہاں تو ہر رشتے کا تقدس بری طرح متاثر ہے رشتوں کا احترام نہیں باغیانہ سوچ اور عمل نئی نسل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے جب اس نوجوان نسل کو حقوق کے ساتھ فرائض ادا کرنے کا احساس نہیں ہوگا تو یہ کامیاب زندگی کے خواب کو تعبیر کے مراحل تک نہیں لے جا سکتے یہی وجہ ہے کہ آجکل میاں بیوی میں علیحدگی کے کیسز زیادہ ہو رہے ہیں ہنستی بستی زندگی اجڑ جاتی ہے علیحدگی کےلئے ایک مخصوص جملے کو تین بار دہرانے سے زندگی کی عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے بچے برباد ہو جاتے ہیں اگر وہ ماں کے ساتھ رہیں تو ان کی مشکلات اور قسم کی ہوتی ہیں اور باپ کے ساتھ رہنے میں ان کی زندگی اور طرز پر گزرتی ہے سوتیلی ماں کے سلوک پر مبنی ہمارے معاشرے کے بچوں کے دکھوں کی الگ کہانی ہے ہمیں سوچنا چاہیے کہ آباد گھر برباد کیوں ہوتے ہیں ذاتی انا کے عذاب سے نکل کر سوچنا چاہیے میاں بیوی زندگی کے ساتھی ہوتے ہیں اختلافات کی صورت میں اگر باہم مشورے اور بات چیت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں تو یہ عمل کرنے میں کیا برائی ہے معاملات زندگی کو خوش اسلوبی سے طے کرنا ہی گھریلو دنیا کو کامیاب بناتا ہے ایثار کے جذبے سے زندگی گزارنا خوشیوں کا پیش خیمہ ہوتا ہے زبردستی حکمرانی گھریلو زندگی کو برباد کرنے کا ذریعہ بنتی ہے باہم مل جل کر زندگی گزارنی چاہیے تاکہ جس نسل کی پرورش آپ کی زمہ داری ہے وہ ایک ذمے دار خوش اخلاق معاشرے کے افراد بنیں اور معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکے تو پھر ایسی شاعری کہ ربا کدی وی پین وچھوڑے ، سن لے دعاواں میریاں ، سننا بنتا ہے ورنہ اپنے آپکو دھوکا دینے والی بات ہے ۔

Exit mobile version