مبصرین کے مطابق یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ بلوچستان، جو عشروں سے محرومی، غربت اور ترقی کے فقدان کی علامت سمجھا جاتا رہا، اب ایک نئی شناخت حاصل کر رہا ہے یعنی خوشحالی اور ترقی کی جانب گامزن ۔واضح ہو کہ اس مثبت تبدیلی کی بنیاد رکھی ہے ریکوڈک منصوبے نے۔ یہ منصوبہ صرف ایک کان کنی پروجیکٹ نہیں، بلکہ بلوچستان کی مکمل معاشی و سماجی تبدیلی کا ذریعہ بن چکا ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ ریکوڈک کا ذکر اب صرف تانبے اور سونے کی کانوں تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ منصوبہ ایک مکمل معاشی انقلاب کی علامت بن چکا ہے۔ جہاں پہلے صرف وسائل کے استحصال کی بات کی جاتی تھی، اب وسائل کے بہتر استعمال، مقامی لوگوں کی شمولیت، اور ان کی زندگیوں میں عملی تبدیلی کی بات کی جاتی ہے کیوں کہ ریکوڈک نے بلوچستان کے عوام، خصوصاً نوجوانوں کو وہ وافر مقدار میں مواقع فراہم کیے ہیں جن کا وہ برسوں سے خواب دیکھتے آ رہے تھے۔غیر جانبدار حلقوں کے مطابق اس منصوبے کی بدولت ہزاروں مقامی افراد کو باوقار روزگار حاصل ہورہا ہے۔اسی تناظر میں یہ بات توجہ کی حامل ہے کہ یہ وہی نوجوان ہیں جو کبھی بے روزگاری، محرومی اور مایوسی کا شکار تھے لیکن آج وہ ہنر مند بن چکے ہیں، ملازمتیں کر رہے ہیں، اور اپنے خاندان کے لیے فخر کا باعث ہیں۔ ان کے چہروں پر اعتماد کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے، جو اس منصوبے کے مثبت اثرات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔معا شی ماہرین کے مطابق ریکوڈک نے صرف معیشت پر کام نہیں کیا، بلکہ سماجی شعبوں میں بھی بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔اسی ضمن میں نوکنڈی میں جدید اسکول، اسپتال اور تربیتی مراکز قائم کیے جارہے ہیں جو مقامی لوگوں کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلی لا رہے ہیں۔یاد رہے کہ اب تک چاغی میں سات پرائمری اسکول قائم کیے جا چکے ہیں جن میں چار سو تین طلبہ زیر تعلیم ہیں اور ان اسکولوں میں جدید نصاب، تربیت یافتہ اساتذہ، اور سیکھنے کا بہتر ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ یہ بچے اب بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی اور فنی تعلیم سے بھی روشناس ہو رہے ہیں، جو آنے والے کل میں بلوچستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ یاد رہے کہ صحت کی سہولیات پہلے سے کہیں بہتر ہو چکی ہیں اورعلاج معالجہ اب مقامی سطح پر خاصی حد تک ممکن ہو چکا ہے۔ پہلے جن بیماریوں کے لیے سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا تھا، اب وہی علاج مقامی اسپتالوں میں ممکن ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو فنی تربیت دی جا رہی ہے تاکہ وہ خود مختار بن سکیں کیوں کہ یہ تربیت انہیں صرف ملازمت کے لیے تیار نہیں کرتی بلکہ انہیں ہنر مند کاروباری شخصیت میں بھی ڈھالتی ہے۔یہاں یہ امر بھی توجہ کا حامل ہے کہ جو نوجوان کبھی مایوس، بے روزگار اور غیر ہنر مند تھے، اب وہ بااعتماد، ماہر اور معاشرے کا فعال حصہ بن رہے ہیں اور ریکوڈک نے ان کے خوابوں کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف اقتصادی ترقی کا ضامن ہے بلکہ ایک مکمل سماجی انقلاب کی صورت اختیار کر چکا ہے۔کسے معلوم نہیں کہ بلوچستان کی تاریخ میں شکایات، ناانصافی اور محرومیوں کی طویل داستانیں ملتی ہیں لیکن ریکوڈک نے حقیقت پر مبنی ایک نیا بیانیہ پیش کیا ہے ۔ترقی، ہنر اور خوشحالی کا بیانیہ۔ یہ منصوبہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ بلوچستان کے مسائل کا حل ترقی میں ہے، نہ کہ شکایت میں۔ یہ ایک عملی مثال ہے کہ اگر ریاستی پالیسی میں شفافیت ہو، عوامی مفاد کو اولین ترجیح دی جائے اور منصوبہ بندی طویل المدتی ہو، تو پسماندہ علاقے بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔اس تمام صورتحا ل کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین نے کہا ہے کہ ریکوڈک کی کامیابی میں ریاستی تعاون، وژنری قیادت اور شفافیت نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔موجودہ حکومت نے نہ صرف سرمایہ کاری کو فروغ دیا بلکہ مقامی لوگوں کو ساتھ لے کر چلا، ان کی تربیت کی، ان کے مسائل سنے اور ان کیلئے عملی اقدامات کیے۔ یہ ایک ماڈل ہے جس سے دوسرے ترقیاتی منصوبے بھی سیکھ سکتے ہیں۔مبصرین کے مطابق ریکوڈک کی کامیابی اس بات کی دلیل ہے کہ جب ریاست اپنے عوام کو ساتھ لے کر چلتی ہے، تو ترقی ممکن ہوتی ہے۔ اس منصوبے نے ثابت کیا ہے کہ قدرتی وسائل کو صرف دولت کمانے کیلئے نہیں بلکہ انسانی ترقی کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ یاد رہے کہ اس کی بدولت بلوچستان میں ایک نیا عزم اور ولولہ پیدا ہورہا ہے۔ریکوڈک نے بلوچستان کی شناخت کو بدل دیا ہے کیوں کہ جہاں پہلے اسے صرف پسماندگی کی علامت سمجھا جاتا تھا، اب وہ ترقی، مواقع اور خودمختاری کی پہچان بن رہا ہے۔ یہی وہ تصویر ہے جو آج دنیا کو دکھائی جا رہی ہے—ایک خودمختار، خوشحال، تعلیم یافتہ، باہنر اور آگے بڑھتا ہوا بلوچستان۔ ریکوڈک نہ صرف وسائل کا درست استعمال ہے بلکہ عوامی خوشحالی اور قومی ترقی کا استعارہ بھی ہے۔کیوں کہ یہ صرف ایک منصوبہ نہیں، بلکہ امید کی ایک کرن ہے جس نے بلوچستان کو نیا حوصلہ، نئی پہچان اور نیا مستقبل دیا ہے۔
ریکوڈک ۔بلوچستان کی ترقی میں بڑا بریک تھرو
