Site icon Daily Pakistan

سائفرکیس کافیصلہ

سابق وزیر اعظم عمران خان نے 8 مارچ 2022 کو متحدہ اپوزیشن کی ایوان میں پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو پہلے سازش پھر بیرونی مداخلت اور بعد ازاں اپنی دعاﺅں کا نتیجہ قرار دیا اس دوران انہوں نے جو الفاظ اور جملے استعمال کئے وہ سب کو پتہ ہے تحریک انصاف کی قیادت نے27 مارچ 2022کے جلسے کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا رکھا تھا-سابق وزیر اعظم وزرا اور پارٹی عہدیدار بار بار یہ باور کرا رہے تھے کہ جلسہ عام میں ان کے سر پرائز سے اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی اور وہ دودھ کی جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گی مگر جلسہ گاہ میں عمران خان نے طویل ترین خطاب کے دوران اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا اسے لہرایا دکھایا نہ ہی اسے پڑھا اور واپس جیب میں ڈال لیا انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہمیں تحریری دھمکی دی گئی ہے، یہ الزام نہیں ثبوت ہے، کوئی شک کر رہا ہے تو آف دی ریکارڈ آکر دیکھ لے 20 دن تک دھمکی آمیز مراسلے پر خاموشی اختیار کرنے اور بعد ازاں جلسہ عام میں خط کو ظاہر کرنے اور اس کی آڑ میں متحدہ اپوزیشن کی قیادت بالخصوص سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو نشانہ بنانے اور تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش سے جوڑنے کی حکومتی مہم کے جواب میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسی گیلانی نے دعویٰ کیا تھا کہ د فتر خارجہ کے سفارتکار نے شاہ محمود قریشی کے کہنے پر یہ خط لکھا اور انہی کو بھجوایاسفارتکار سے خود ساختہ خط موصول ہونے کے بعد شاہ محمود قریشی نے وزیر اعظم کو یہ خط پہنچایا ان کا دعویٰ تھا کہ وہ خط کے معاملے کے مکمل حقائق سے ذاتی طور پر واقف ہیںشاہ محمود قریشی اور دفتر خارجہ اس جعل سازی کے اصل کردار ہیں،وزیر خارجہ اور دفتر خارجہ لیٹر گیٹ سیکنڈل میں بری طرح پھنس چکے ہیں علی موسی گیلانی کا دعویٰ سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں قید با مشقت سے درست ثابت ہو گیا ہے امریکہ سے تعلق رکھنے والے سفارتی مراسلے کا سیاسی مقاصد کےلئے استعمال اور وزیر اعظم ہاﺅس سے ان مراسلے کا پر اسرار طور پر غائب ہوجانا اس مقدمے کے بنیادی نکات تھے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کی جانب سے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دس’ دس سال قید کی سزا کا حکم دراصل ایک اصولی موقف کا پیغام ہے کہ قومی سیاست میں ریاستی مفادات مقدم رہنے چاہئیںاور کسی بھی صورت حال میں خفیہ معلومات کو کسی بھی صورت میں بے نقاب نہیں کرنا چاہیے اور اگر ایسا کرنےوالا شخص ملک کے اہم ترین منصب پر ہو یا رہا ہو اور اس کی جانب سے ایسے کسی غیر ذمہ دارانہ عمل کا ارتکاب ہو تو پھر اس کی جواب طلبی بھی ہونی چاہیے اور اسے جوابدہ بھی بننا چاہیے عمران خان کا 27 مارچ کو پریڈ گراﺅنڈ کے جلسے میں سفارتی مراسلہ لہرانے کا پس پردہ مقصد قومی مفاد سے زیادہ سیاسی مفادات کا حصول اور وطن عزیز کے معصوم عوام کو قوم پرستی کے نام پر بیوقوف بنانا تھا بانی پی ٹی آئی نے وزیر اعظم جیسے بڑے منصب پر رہتے ہوئے سائفر کی خفیہ دستاویز کو جس طرح سیاسی مقاصد کےلئے استعمال کیا اس سے بیرونی دنیا میں پاکستان کے حوالے سے منفی تاثر پیدا ہوا خود عوام اور قومی سلامتی کے اداروں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی کوشش ہوئی تحریک انصاف کے رہنماﺅں کو اس بات کا قوی یقین تھا کہ وہ ملک کی موجودہ صورتحال میں قوم کو مزید تقسیم در تقسیم کرکے اور امریکہ مخالف بیانیہ کو آگے بڑھا کر اپنے سیاسی مخالفین کو چاروں شانے چت اور انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں بانی پی ٹی آئی نے 8 مارچ کو متحدہ اپوزیشن کی آئینی طریقہ کار کے مطابق قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ پارلیمانی اور جمہوری طریقے سے کرنے کے بجائے بھائی سے بھائی کو لڑانے ملک کو انتشارافراتفری اور عدم استحکام سے دوچار کرنے کا جو خطرناک راستہ اپنایا اس کا عملی مظاہرہ 9 مئی کو پوری قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہر عدالتی فیصلے کی طرح اس فیصلے پر بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں ٹرائل کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ کو اعلی عدالت سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے جہاں ان کے وکلا وہ قانونی اور ضابھے کے نکات اٹھا سکتے ہیں جو ان کی دانست میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں ملحوظ خاطر نہیں رکھے گئے مذکورہ سزا کے عمل کے حوالے سے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس کیس کی سزا کے عمل کے دوران ان کے وکلا کی عدم موجودگی بڑا سوال ضرور کھڑا کرتی ہے کہ ایسا کیوں کر ہوا خصوصی عدالت کے اس فیصلے کا دورانیہ بھی بہت اہم اور قابل غور ہے یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب عام انتخابات میں ایک ہفتہ رہ گیا ہے’ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے دو رہنماﺅں کے خلاف اس فیصلے کے سیاسی مضمرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ اور کسی قسم کے احتجاج سے پرہیز کیا ہے سائفر کیس میں کئی اہم موڑ آئے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس مقدمے میں قانونی سقم کی بنیا د پر 11جنوری تک ملزمان کے خلاف خصوصی عدالت کو کسی کارروائی سے روکا جبکہ سپریم کورٹ نے اس مقدمے کے دونوں ملزمان کی بعد از گرفتاری ضمانتیں بھی منظور کیں تاہم مقدمے کی گواہیاں ہی فیصلے میں ملزم کی بریت یا سزا کے تعین کا سبب بنتی ہیں سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ملنے والی سزا کے حوالے سے ایک اہم بات یہ سامنے آئی ہے کہ سیاسی لیڈر شپ اپنا کیس قانونی بنا پر لڑنے کی بجائے سیاسی بنا پر لڑتی ہے اور اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کے کیس اور بعد ازاں خود نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس کے حوالے سے بھی یہی بات کہی گئی شاید سیاسی لیڈر شپ کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ مورد الزام نہیں ٹھہرائے جائیں گے اس کا انہیں الٹا نقصان ہوتا ہے’ بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے تو سزا کے عمل کے باوجود کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس حوالے سے اب بھی اپنے موقف پر قائم ہیں اور ان کی جانب سے اس فیصلہ کو چیلنج بھی کردیا گیا ہے اب دیکھنا ہوگا کہ اعلی عدلیہ مذکورہ سزاﺅں کے عمل کو کیسے لیتی ہیں اس میں دو رائے نہیں کہ ملزم کو مرضی کے وکیل کے ذریعے اپنے دفاع کا حق دینا انصاف کا بنیادی اصول اور آئین پاکستان کی رو سے اس کا حق ہے کسی ملزم کو اس حق سے محروم کرنے سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے یہ ایک اصولی بات ہے کہ اور ملک نظام عدل اس اصول کو نظر انداز نہیں کرسکتا اگر کسی مقدمہ میں ابتدائی عدالت کی سطح پر کوئی سقم رہ جائے تو اعلی عدالتیں اس کا ازالہ کرنے کےلئے موجود ہیں-خصوصی عدالت کے فیصلے پر جو سوالات اٹھائے جارہے ہیں ان کا ازالہ اب اعلیٰ عدالت ہی کرسکتی ہے۔

Exit mobile version