اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا جس میں 9 گواہان کے بیانات کو خلاف قانون قرار دے دیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جاری سائفر کیس کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 21 دسمبر تک ان کیمرہ ٹرائل میں 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کئے گئے، 13 میں سے 4 گواہان دفتر خارجہ کے سائفر سیکیورٹی سسٹم سے منسلک ہیں۔عدالت کے مطابق اٹارنی جنرل نے یہ بھی بتایا کہ سائبر سیکیورٹی سسٹم سے منسلک 4 گواہان کے بیانات خفیہ ریکارڈ کرنا ملکی سلامتی کے لیے اہم ہے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت سمجھتی ہے کہ بقیہ 9 گواہان کے ان کیمرہ بیانات قانون کے مطابق نہیں جن کا جائزہ لینا ضروری ہے۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل کے مطابق 21 دسمبر کے بعد اوپن ٹرائل میں 12 گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے، محض پراسیکیوشن کی درخواست پر اوپن ٹرائل کو ان کیمرہ نہیں کیا جا سکتا، ان کیمرہ ٹرائل میں 9 گواہان کے بیانات دوبارہ ریکارڈ کرنے کو حتمی فیصلے میں دیکھا جائے گا۔تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سائفر ٹرائل میں خصوصی عدالت نے گواہان کے بیانات کی مصدقہ کاپیز جاری کیں، عدالت مصدقہ کاپیز سے جائزہ لے گی کہ ریاست کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے یا نہیں۔
عدالتی سماعت
قبل ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی سائفر ٹرائل پر حکم امتناع کی درخواست منظور کرتے ہوئے ٹرائل روکنے کا حکم دیا۔سائفر کیس میں ٹرائل کورٹ کے 12 دسمبر کے حکم نامے کے خلاف بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔ دوران سماعت عدالت نے درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ ٹرائل روک دیا جائے، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ نوٹس جاری کررہے ہیں، اس کے بعد عدالت اس معاملے کو دیکھے گی۔