Site icon Daily Pakistan

سازشوںسے جو تباہی شروع ہوئی وہ آج بھی جاری ہے

یوں تو قیام پاکستان کے بعد ہی بیوروکریسی کے دو افسروں اور میجر جنرل ایوب خان نے سیاسی نظام کوتہہ و بالا کر دیا اور سیاستدانوں کےخلاف سازشوں کا آغاز کر دیا تھا۔ میجر جنرل ایوب خان نے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے قریبی تعلقات استوار کر لئے تھے۔ دوسری جانب سکندر مرزا لیاقت علی خان سے بہت قریب تھے۔ میجر جنرل سکندر مرزا برصغیر میں برطانوی دور کے دوران برٹش انٹیلی جنس میں کافی عرصہ کام کرتے رہے۔ وہ انگریز حکومت کے خاص منظور نظر تھے۔ ایوب خان کے کہنے پر جنرل سکندر مرزانے اس وقت کے سب سے سینئر فوجی افسر میجر جنرل اکبر رنگروٹ کو رولنگ سٹاک بنا رکھا تھا۔انہیں کہیں ٹکنے نہیں دیتے تھے اور آئے دن ان کے تبادلے کرتے رہتے تھے۔ جب قائد اعظم ؒنے زیارت دیکھنے کا فیصلہ کیا تو میجر جنرل اکبر رنگروٹ کوئٹہ میں تعینات تھے۔ جنرل اکبر نے قائد اعظمؒ سے شکایت کی کہ انہیں میجرجنرل سکندر مرزا تنگ کرتا ہے اور کسی ایک جگہ کام کرنے نہیں دیتا۔ تو قائد اعظمؒ نے برجستہ فرمایا”تم میر جعفر کے پوتے سکندر مرزا سے ڈر گئے ہو، اس صورتحال میں تمہیں احتیاط کرنا چاہیے،“
پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سات سال کے عرصہ میں آئین تیار نہ کر سکی جب بڑی تگ و دو کے بعد 1954ءکے آئین کا ڈھانچہ بن چکا تھا اور اسمبلی اس کی منظوری بھی دے چکی تھی۔ 1954ءمیں اس آئینی ڈھانچے کے تحت گورنر جنرل ملک غلام محمد کے اختیارات محدود کر دیئے گئے تھے۔چنانچہ ملک غلام محمد نے ایوب خاں کی شہ پر پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی توڑ دی۔
انیس سو چھپن میں انتخابی اصلاحات کی تجاویز دینے والے سرکاری کمیشن نے اعتراف کیا کہ پاکستان بننے کے بعد سات برس کے عرصے جتنے بھی صوبائی انتخابات ہوئے وہ جعل سازی، فراڈ اور مذاق سے زیادہ نہیں تھے۔اور پھر انہی منتخب صوبائی اسمبلیوں نے انیس سو چون میں پاکستان کی دوسری مجلسِ قانون ساز تشکیل دی جس نے ون یونٹ نظام کے تحت انیس سو چھپن کا پہلا آئین بنایا۔ یہ اسمبلی اسی ارکان پر مشتمل تھی یعنی ملک کے دونوں حصوں سے چالیس چالیس ارکان لیے گئے تھے۔23 مارچ 1956ءکو ملک کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا۔سکندر مرزا پہلے صدر مقرر ہوئے۔ آئین کے تحت ملک میں پہلی مرتبہ ایک تین رکنی الیکشن کمیشن تشکیل دیا۔لیکن اس سے پہلے کہ یہ الیکشن کمیشن انتخابات کرا پاتا۔ صدر میجر جنرل سکندر مرزا نے جنرل ایوب خان کہ شہ پر 1956ءکے آئین کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔
7 اکتوبر 1958ءکو اس وقت کے وزیر اعظم سر فیروز خان نون کو ایک صفحے کی سمری بھیجی جس میں لکھا تھا کہ 1956ءکے آئین کو فوری طورپر منسوخ کر دینا چاہیے ورنہ پاکستان کو خطرناک نتائج بھگتنا پڑیں گے اور وطن عزیز کی سالمیت کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ سکندر مرزا نے اپنے خط میں فیروز خان کو لکھا کہ میں آپ کا بہت احترام کرتا ہوں۔ آپ کی خوشنودی یا بھلائی کا خاص خیال رکھوں گا۔ میں 1956ءکا آئین منسوخ کر رہا ہوں اور اس کے ساتھ ہی علیحدہ اعلامیہ کے ذریعے مارشل لاءنافذ کر کے جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر مقرر کر رہا ہوں۔ سکندر مرزا کی اس سازش سے پاکستان میں جمہوریت کی تباہی و بربادی شروع ہوئی جو بدقسمتی سے آج بھی جاری ہے۔
پی ڈی ایم کے سولہ ماہ کے دور میں نہ صرف آئین کی کھلم کھلا خلا ف ورزی ہوئی اور قومی اسمبلی و دوصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے سے گریز کیا گیا۔ چیف جسٹس عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اس عمل کو آئین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور آئین کے تحت انتخابات کرانے کا فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے باوجود صدر کی تجویز پر الیکشن کرانے کی تاریخ مقرر نہ کی گئی ۔تب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمشن کو ہدایت کی کہ وہ صدر سے رابطہ کر کے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں۔ اگرچہ صدر اور سپریم کورٹ کی مقرر کردہ تاریخ 8 فروری2024 کو چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن ن لیگ کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وہ آئندہ حکومت بنائیں گے۔
حافظ نعیم الرحمن، امیر جماعت اسلامی کراچی کے بقول ایک عدالتی مجرم اورنا اہل مفرور شخص کو ملک کا بادشاہ بنایا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی نگران حکومت کے طرز عمل پر سخت نالاں ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ نواز شریف کے سلیکشن کو قبول نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور انہوں نے اس ملک کےلئے کچھ نہیںکیا۔ لندن میں جائیدادیں بنائیں ۔ اب اگر انہیں عوام کی مرضی کے خلاف وزیر اعظم بنایا گیا تو وہ قوم کےلئے کچھ نہیں کر پائیں گے جیسے کہ وہ تین بار برسر اقتدار آنے کے بعد عوام کی بھلائی کےلئے کچھ نہ کر سکے۔
دوسری جانب تمام جمہوری سیاسی جماعتیں بجا طورپر شکوہ کر رہی ہیں کہ ایک مقبول جماعت کے رہنما کو بے شمار مقدمات بنا کر جیل میں ڈال دیا گیاہے او ر پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنماو¿ں کو بار بار مقدمات بنا کر گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں انتخابات مذاق بن کر رہ گئے ہیں ۔ اور اس مذاق کو نہ پاکستانی عوام قبول کریں گے اورنہ باہر کی دنیا ان انتخابات کو جائز تصور کرے گی۔
ملک میں جو صورتحال جاری ہے عوام ان کو بخوبی سمجھتی ہے اور ہماری اسٹیبلشمنٹ نے اس صورتحال کو سدھارنے پرتوجہ نہ دی تو اسٹیبلشمنٹ کو نیک نامی کی بجائے بدنامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ ہمیں امید ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی آئینی و پیشہ وارانہ ذمہ داریوں پر تمام توجہ مبذول کرے گی اور ملک تمام ادارے صاف شفاف اور آزادانہ انتخابات کرانے پر توجہ مبذول کریں گے۔ اگر اسی طرح سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی پکڑ دھکڑ جاری رہی تویہ ملک میں انتخابات ایک ڈھونگ تصور کیے جائیں گے۔

Exit mobile version