Site icon Daily Pakistan

سانحہ سوات: شعور کا فقدان یا حکومت کی غفلت؟

چشمہ، دریا، سبزہ، پہاڑ اور ٹھنڈی ہوائیں سوات کی خوبصورتی وہ نعمت ہے جسے قدرت نے پاکستان کے ماتھے کا جھومر بنایا ہے۔ یہی جھومر اس بار ماتم کناں ہے۔ سوات کے دریا نے چند لمحوں میں کئی گھر اجاڑ دیے۔ ایک پر رونق خاندان کی اجتماعی موت نے پورے ملک کو سوگ میں ڈال دیا۔
سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز میں وہ منظر آج بھی تروتازہ ہیں ایک گاڑی جس میں خواتین و بچے سوار تھے، دریا کے قریب درختوں کے سائے تلے رکی۔ پھر لمحے بھر میں دریا کا طغیانی بھرا ریلا آیا، اور گاڑی اپنے مکینوں سمیت نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ چند لمحے پہلے جو قہقہے گونج رہے تھے، وہ اب کرب میں بدل چکے تھے۔اب سوال یہ ہے:
کیا یہ سب صرف خیبر پختونخواہ کی حکومت کی ناکامی ہے؟کیا محکمہ موسمیات نے خبردار نہیں کیا تھا؟کیا ضلعی انتظامیہ نے عوام سے بار بار اپیل نہیں کی تھی کہ دریا کے کنارے جانے سے گریز کریں؟کیا میڈیا اور سوشل میڈیا پر جاری سیلابی وارننگز کافی نہیں تھیں؟مانا کہ حکومتوں کو اپنے حصے کا کام مثر انداز میں کرنا چاہیے وارننگ جاری کرنا، خطرناک علاقوں کو سیل کرنا، نشیبی بستیوں کو خالی کرانا، امدادی کارروائیوں کو تیز کرنا لیکن کیا ہر فرد کی جان کی حفاظت بھی حکومت ہی کرے گی جب ہم خود خطرات کو دعوت دیتے ہیں؟اس سوال پر توجہ دیجیے:کیا پکنک اتنی ضروری تھی کہ جان کی بازی تک لگا دی گئی؟
دریا کے کنارے بیٹھ کر کھانا کھانا، سیلفیاں بنانا، قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہونا یہ سب دلکش اور خوبصورت ہے، لیکن اس وقت جب فطرت مہربان ہو، نہ کہ جب وہ خبردار کر رہی ہو کہ "میں بپھرنے والی ہوں!”
سوات، بحرین، کالام اور مدین کے مقامی لوگ بار بار سیاحوں کو تنبیہ کرتے رہے کہ "مت جائیں دریا کے قریب!” لیکن کچھ سیاحوں نے مقامیوں کی اس خیر خواہی کو مذاق سمجھا، اور چند نے تو جھگڑا بھی کیا۔ وہ سمجھتے رہے کہ دریا بس ایک منظر ہے حالانکہ وہ بپھرا ہوا دریا تھا، جو منظر سے زیادہ قبر کا کنارا بن چکا تھا۔
ایک مقامی شخص کی وائرل ویڈیو میں وہ روتے ہوئے کہتا ہے:”ہم نے روکا تھا، ہاتھ جوڑ کر کہا تھا، لیکن وہ کہتے رہے، ہمیں کیا ہوگا؟”یہ ایک جملہ ہمارے قومی مزاج کا آئینہ ہے "ہمیں کیا ہوگا؟”
ہم قوانین توڑتے ہیں، ہدایات کو مذاق سمجھتے ہیں، خطرات کو نظر انداز کرتے ہیں، اور پھر جب سانحہ ہو جاتا ہے تو سارا بوجھ حکومت پر ڈال دیتے ہیں۔
یقینا حکومت بھی بری الذمہ نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم خود اپنی جانوں کے رکھوالے نہیں؟
ہماری ذہنیت بدلنے کی ضرورت ہے جہاں صرف حکمران نہیں، رعایا بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھے۔ جب ہم بارش میں نکاسی کا نظام کوستا ہے، تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم نے خود نالوں میں کچرا پھینکا تھا؟ جب ہم ٹریفک جام پر برستے ہیں، تو یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہم نے خود غلط پارکنگ کی تھی؟
یہ صرف حکومتوں کا قصور نہیں، یہ ایک اجتماعی المیہ ہے جس کا حصہ ہم سب ہیں۔
جہاں سیاست ہو جائے سانحے کے بستر پر
وہاں درد بھی شرماتا ہے، آنکھ بھی بھیگتی نہیں
آئیے، سیاست، بغض، اور نفرت سے ہٹ کر سوچیے کیا ہر بار صرف حکومت جواب دہ ہے؟ کیا فیس بک پر پوسٹیں لگانے سے ہی شعور آ جائے گا؟اس موقع پر ایک نوجوان کی پوسٹ دل کو چیر گئی:”امی نے کہا تھا نہ جانا، اب کیسے لوٹ کرآں؟”
آئیے!اب بھی وقت ہے ہم ان سانحات سے سبق لیں۔
حکومتیں اپنی جگہ، لیکن ہمیں اپنے اندر بھی ایک حکومت قائم کرنی ہے شعور کی، احتیاط کی اور انفرادی ذمہ داری کی۔
سانحہ سوات ایک قومی المیہ ہے، جس میں جانیں ضائع ہوئیں، گھر اجڑے، اور دل پاش پاش ہوئے۔ حکومت کی اپنی سطح پر کوتاہیاں ضرور ہوں گی، لیکن ہر موت کا ملبہ صرف انتظامیہ پر ڈال دینا انصاف نہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم اپنی سوچ، رویے اور طرزِ زندگی پر بھی نظر ڈالنی ہوگی۔
بہہ گیا وقت کے ریلے میں شعور بھی شاید
صرف حکومت کو کوسنے سے کفن نہیں سلتے!

Exit mobile version