Site icon Daily Pakistan

سانحہ کربلا،اسوہ حسےنی اور خود اختسابی

از ابتداءتا امروز حق و باطل کی کشمکش برپا ہے ۔اہل باطل مختلف روپ دھار کر حق کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہےں ۔کبھی نمرود کے روپ مےں ،کبھی فرعون کی شکل مےں ،کبھی شداد کے بھےس مےں کبھی ابوجہل اور کبھی ابو لہب کے لباس مےں تو کبھی اسلام کے لبادے مےں ےزےد بن کر نور خدا کو گل کرنے کی سعی کرتے ہےں ۔مسلمانان عالم محرم کے ان اےام مےں اسلام کے اس بطل جلےل کی ےاد مناتے ہےں جس نے اپنی خونی قربانےوں سے اپنے عدےم النظےر اےثار سے ،اپنے بلند ترےن کردار سے اپنے دشمنوں سے بھی منوا لےا کہ حسےن ؑاسلام کا مجسمہ اور دےن کی جےتی جاگتی تصوےر ہے۔آج دنےا مےں بدکردارےوں کا سلسلہ جاری ہے عےش وعشرت کے دھنی مال و دولت کے متوالوں کی اکثرےت ان جرائم مےں ملوث ہے جس سے اسلام نے شدت کے ساتھ منع کےا تھا ۔دنےا کا ہر آزادی خواہ ،ہر جرا¿ت مند ،ہر انصاف جو ،ہر مفکر،ہر عابد ،ہر زاہد اور ہر مصلح تا صبح محشر حسےن ؑ کاممنون ہے ۔آج ہمےں بھی اسوہ شبےری کو رہنما مان کر اپنے کردار و اصلاح کی طرف توجہ دےنی چاہئےے ۔محرم الحرام کے دن غم و اندوہ مےں ڈوبے ہوئے ہوتے ہےں ۔ذکر نواسہ رسول جگر گوشہ علیؑ و بتولؑ مےں شےعہ سنی کی تخصےص نہےں ۔ان اےام مخصوص مےں غم حسےنؑ ،غم دنےا،غم روزگار غرض ہر غم پر بھاری نظر آتا ہے محرم الحرام کے ان دنوں راقم کا غم حسےنؑ کے سلسلہ مےں برپا ہونے والی اےک مجلس مےں جانا ہوا ۔بانی مجلس کے انتظام و انصرام اس کی امام عالی مقام ؑ کے حضور عقےدت مندی کے غماز تھے ۔مجلس مےں چند نوجوانوں نے امام مظلوم کربلاؑ کے حضور عقےدت مندی کا اظہار اےک نوحہ کے اشعار کی صورت مےں کےا جس کا طرح مصرعہ تھا۔
اے کاش مےں بھی ہوتا مےدان کربلا مےں
نوحہ کے تمام اشعار رقعت آمےز تھے ،جن مےں امام مظلوم کے ساتھ دلی وابستگی کے جذبات کا اظہار تھا ۔نوحہ کے اشعار کا مرکزی خےال ےہی تھا کہ اگر مےں بھی مےدان کربلا مےں موجود ہوتا تو ان پر اپنی جان فدا کرتا ،اپنا قرض اتارتا اور اپنا نام شہدائے کربلا کی فہرست مےں شامل کرواتا ۔اشعار نوجوانوں کے دلی جذبات کی عکاسی و ترجمانی کر رہے تھے ۔ےہ درد انگےز اشعار سننے پر راقم کے نہاں خانہ¿ دل سے کئی خےالات و احساسات ابھر رہے تھے کہ آےا ہم نے سانحہ¿ کربلا سے کوئی سبق سےکھا ہے ۔ہمارے نفس خفتہ مےں بےداری کی لہر پےدا ہوئی ہے ۔امام مظلومؑ کے دےے ہوئے سبق پر عمل پےرا ہونے کی سعی کی ہے ۔جن اصولوں کی پاسداری مےں اہل بےت کے سبھی شرکاءنے اےمان و کردار کے اوج پر پہنچ کر ےقےن کی پختگی کا ثبوت دےا ان اصولوں کی آبےاری مےں ہم نے اپنی زندگی کے قول و فعل مےں انہےں کوئی جگہ دی کہےں ان کی پامالی تو ہم سے سرزد نہےں ہوئی ،اور اگر اےسا ہوا تو پھر نوحہ گری کی ضرورت ہے ہماری بے حسی پر، ہمارے خفتہ ضمےر پر جس کے زےر اثر ہمارے خلوص ،عشق،ذوق و شوق ،جوش و جذبات ،محبت،تڑپ ،باہمی رواداری جےسے احساسات مادےت کے زےر اثر کہےں کھو گئے ۔مادےت پرستی مےں ہم اتنا آگے نکل چکے کہ ان خوبصورت جذبوں سے ہم خود ہی خوف زدہ ہو گئے ۔ہم ان جذبوں کی صداقت کو نظر انداز کر کے ان کو سلانے اور بےداری کو دبانے کی سعی کرتے نظر آئے ۔دےن اسلام مےں وحدت فکرو عمل کو اولےن حےثےت حاصل ہے لےکن افسوس کہ اسی عالمگےر دےن کو ہم وطن عزےز مےں آج اجنبی محسوس کرتے ہےں ۔ہم چھوٹی چھوٹی اکائےوں مےں تقسےم ہو گئے ۔ہمارے اندر اےسے گروہ پےدا ہو گئے جو فرقہ وارانہ عصبےتوں اور مذہبی ہم آہنگی کی فضا کو غبار آلودہ رکھنے کا باعث بنے ۔محبت و رواداری کی جگہ باہمی عداوت و بے زاری نے لے لی ۔اسلام نے ہمےں امن و آشتی کی تعلےم دی لےکن ےہاں ہم نے معصوم انسانوں کے گوشت کے لوتھڑے اڑا دےے ۔غےر مسلموں مےں تو پہلے ہی ہمارے خلاف غلط تصورات شدت سے موجود ہےں اور وہ مسلمانوں کو انتہا پسند سمجھتے ہےں ۔ہم ہےں کہ ان تمام حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے اس خےال خام پر مطمئن ہےں کہ ہم مسلمان ہےں ۔ےہ سب ہمارا فرےب نظر ہے۔
ہم اپنے عظےم اسلاف کی عظےم قربانےوں اور اعلیٰ رواےات پر اتراتے تو ضرور ہےں لےکن ان پر عمل کرنے سے کتراتے ہےں ۔قربانی اےک مذہبی فرےضہ بھی ہے اور اےک سچا جذبہ بھی ۔جان کی قربانی کو سب قربانےوں پر فوقےت حاصل ہے۔دنےا مےں انسان کی سب سے قےمتی متاع زندگی ہے ،اسے قربان کرنا کسی سچے نظرےے پر ،کسی عظےم مقصد پر کوئی چھوٹی بات نہےں ۔خودنبی پاک اور صحابہ کرام ؓکی زندگےاں ہمارے سامنے ہےں جنہوں نے اپنی زندگےاں اسلام کی تروےج و اشاعت کےلئے وقف کر دےں اور اسلام قبول کرنے کی پاداش مےں ان پر تشدد کی انتہائےں کر دی گئےں لےکن باوجود ان سب کے خدا کی وحدانےت اور نبی کی رسالت کے اقرار مےں ان کی زبان نے ذرا سی لغزش نہ دکھائی ۔دراصل ےہی حوصلہ ہے ،ےہی اےمان کی قوت ہے ،ےہی جواں مردی ہے ،ےہی ےقےن کی دولت ہے ۔عقےدہ کی مضبوطی اور کائنات کو پےدا کرنے والی ذات پر پختہ ےقےن ہی وہ واحد ذرےعہ ہے جو اسلامی معاشرہ کی واحد فکری بنےاد ہے ۔کربلا محض اےک مقتل نہےں بلکہ اےک مکتب ہے ۔ہم نے عہد موجود مےں کربلا کے غم کو صرف آنسوﺅں کا نذرانہ پےش کےا رسمی انداز مےں واقعات کربلا کو سنا لےکن کربلا مےں خانوادہ¿ رسول کی قربانےوں سے وہ سبق حاصل نہ کےا جس کےلئے اتنی عظےم شہادت پےش کی گئی ۔حسےنےت محض چند رسومات اور تکلفات کا نام نہےں ،حسےنےت نام ہے جذبہ¿ جہاد اورشوق شہادت کا۔کربلا کے واقعات انسانوں کےلئے اےک راہ عمل متعےن کرتے ہےں اور مصائب مےں نہ گھبرانے کا حوصلہ عطا کرتے ہےں امام مظلوم کی قربانی انسانےت کے شرف اعلیٰ کا وہ مقام ہے جس کے پےش نظر اس ذات گرامی پر دنےا تحسےن کے پھول نچھاور کرتی ہے ۔امام حسےنؑ کی ےہ تحرےک آمرےت اور ملوکےت کے خلاف اےک صدائے احتجاج تھی ۔ےہ قربانی حق و صداقت اور آزادی کا اےک در س ہے ۔دنےا کی ہر شے کو فنا ہے مگر خون شہادت کے ےہ قطرے جو اپنے اندر حےات الٰہےہ کی روح رکھتے ہےں کبھی فنا نہےں ہوتے ۔ان اہل اےمان نے تو اس وقت بھی اپنے خلاف جدال و قتال کے اس مرحلے مےں بھی صدق و صفا سے انحراف نہ کےا ،جن کے قاتلوں کو ےقےن تھا کہ ابد تک امام حسےنؑ اور ان کے رفقاکا کوئی نام لےوا باقی نہ رہے گا لےکن وقت کا فےصلہ مختلف تھا ۔ےزےد ہمےشہ کےلئے برائی اور امام حسےنؑ دائمی اچھائی کا نام بن گےا ۔امام ؑ کی قربانی کا تذکرہ جھوٹ ، جبروتشددسے ہمےشہ کےلئے بےزاری اور ظالم کے سامنے سر تسلےم خم نہ کرنے کا اظہار ہے ۔کےونکہ امامؑ نے جو آواز مےدان کربلا مےں بلند کی تھی وہ ضمےر انسانی کی اجتماعی صدا تھی اور آج بھی دنےائے انسانےت مےں جو خطہ¿ ارض پر ظلم و جور،جبرو تشدداور ملوکےت کے خلاف آواز حق بلند ہوتی ہے وہ حسےنؑ ابن علیؑ کی آواز ہے ۔کسی سردار کا کسی خاص مشن و ہدف کے حصول کےلئے مادی وسائل ترک کر کے اپنے چےن و سکون کو برباد کر کے مےدان کارزار مےں اترنا کوئی معمولی بات کا متحمل نہےں ۔اسی کا نام صبر ہے۔کربلا والوں کی حقانےت و سچائی کی اس سے بڑھ کر دلےل کےا ہو گی کہ چودہ صدےاں گزرنے کے بعد بھی ان کا ذکر اس باوقار طرےقے سے زندہ ہے جےسے ےہ مبنی بر حق واقعہ کل ہی وقوع پذےر ہوا ہو ۔سانحہ¿ کربلا سے سبق ملتا ہے کہ مظلومےت سے بڑھ کر کوئی قوت نہےں ۔حضرت امام حسےنؑ نے حق کے اصولوں کی خاطر جان دے کر جو مثال قائم کی وہ ہر ظلم و استبداد کے خلاف بے نواﺅں کےلئے سرماےہ¿ قوت بنی رہے گی ۔روح اسلام کی طرح روح کربلا بھی امر ہے ۔ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم غور کرےں کہ امامؑ نے جو عظےم قربانی دی اس قربانی کی اصل روح ہمارے اندر کس حد تک بےدار ہوئی ہے اور ہم اس قربانی کے حقےقی مفہوم سے کس حد تک آشنا ہوئے ہےں۔

Exit mobile version