Site icon Daily Pakistan

ستمبر میں بھارتی افواج کی ستمگری

غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھتے ہوئے گزشتہ ماہ ستمبر میں ایک بچے سمیت سات کشمیریوں کو شہید کردیا۔ن میں سے تین کو جعلی مقابلوں میں یادوران حراست شہید کیاگیا۔ ان شہادتوں کے نتیجے میں دو خواتین بیوہ اورسات بچے یتیم ہوگئے۔بھارتی فورسز نے اس عرصے کے دوران محاصرے اورتلاشی کی 163 کارروائیوں میں طاقت کا وحشیانہ استعمال کرکے 101افراد کو زخمی اور351کو گرفتارکرلیا۔ قابض حکام نے ایک ماہ کے دوران مختلف بہانوں سے9 کشمیریوں کی جائیدادیں بھی ضبط کرلیں۔غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں کشمیریوں کو بے دخل کرنے کی اپنی نوآبادیاتی مہم جاری رکھتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر منو سنہا کی زیرقیادت قابض انتظامیہ نے بڈگام کے علاقے بیرواہ میں ایک اورکشمیری کی جائیداد ضبط کر لی ہے۔ بھارتی پولیس نے کشمیری شہری فیاض احمد کی بیرواہ کے علاقے داسن میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت 3کنال اور 19مرلے پرمشتمل جائیداد ضبط کی ہے۔قابض حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ فیاض ایک "آزادی پسند کارکن” ہے جو زمین کو فروخت کرکے اس سے حاصل ہونے والی رقم کو آزادی پسند سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔اگست 2019میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے، بھارتی قابض انتظامیہ نے اپنی استعماری پالیسیوں کو تیز کر دیا ہے اور کشمیریوں کوانکے گھروں،جائیدادوں، زمینوں اور کاروباروں سے محروم کیاجارہاہے۔حالیہ برسوں کے دوران ہزارطوں کشمیری لاپتہ ہوئے اور ان میں سے زیادہ تر کو بھارتی فورسز اہلکار زبردستی اٹھا کر لے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی حراست میں گزشتہ30 سال کے دوران آٹھ ہزار کشمیری لاپتہ ہو گئے ہیں۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم(اے پی ڈی پی) کے مطابق لاپتہ ہونے والے آٹھ ہزار افراد میں سے زیادہ تر نوجوان ہیں لیکن ان میں کم عمر نوجوان بھی شامل ہیں۔ اسی طرح دیگر شعبوں کے ہر عمر کے افراد بھی شامل ہیں۔مودی کی فسائی بھارتی حکومت کی طرف سے 5اگست 2019کو غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ علاقے میں بھارتی ریاستی دہشت گردی، ماورائے عدالت قتل،جبری گرفتاریوں اور انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیوں میں تشویشناک حد تک اضافہ رریکارڈ کیاگیا ہے۔
اگست2019کے بی جے پی کی بھارتی حکومت کے اس غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کے بعد سے بھارتی فوجیوں نے گزشتہ ماہ تک مقبوضہ علاقے میں28 لڑکوں سمیت 857 کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیرمیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔مودی حکومت مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی شناخت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے کشمیریوں سے انکی املاک ، جائیدادیں ، زمینیں اورسرکاری نوکریاں چھین رہی ہے۔بھارتی قابض انتظامیہ اور اسکی فوج کشمیریوں کو اپنے ناقابل تنسیخ حق خودارایت کے مطالبے سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنے کیلئے ان کی جائیدادیںا ور اراضی ضبط کر رہی ہے۔تاہم بھارت تمام تر مظالم کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کمزور کرنے میںبری طرح ناکام رہا ہے۔
کشمیری عوام اپنے پیدائشی حق خودارادیت سمیت تمام بنیادی حقوق کے حصول کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہیں۔ رپورٹ میں عالمی برادری پر زوردیا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے وحشیانہ اقدامات کا فوری نوٹس لے اور کشمیریوں کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر دبائو بڑھائے۔اقوام متحدہ کی جانب سے مقبوضہ کشمیرمیں اب تک 5 قراردادیں منظورکی جا چکی ہیں، مگر ایک پر بھی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام پر بہیمانہ مظالم میں بے جے پی ملوث ہے۔ جینوسائیڈ واچ پہلے ہی دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کی مہم سے خبردار کر چکی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے انسانی حقوق کے محافظوں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق دبانے اور اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے انسداد دہشت گردی اور منی لانڈرنگ سمیت جابرانہ قوانین کا استعمال کیا جن میں طویل مدت تک حراست میں رکھنا اور ماورائے عدالت ہلاکتیں شامل ہیں۔ حکام نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق کے محافظوں کو ہراساں کیا۔کشمیر بھارت کا حصہ نہیں اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ایک متنازعہ علاقہ ہے جس میں کشمیریوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ یہ حق عالمی ادارے کی قراردادوں نے اسے دلا رکھا ہے لیکن بھارت آج تک حیلوں بہانوں سے استصواب رائے کو موخر کر کے شاید یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ کشمیر اس کا حصہ بن چکا ہے۔ حالانکہ کشمیریوں نے ہر موقع پر ثابت کیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔

Exit mobile version