Site icon Daily Pakistan

سپریم کورٹ اور ہمارا سیاسی نظام

سپریم کورٹ نے ہمارے سیاسی نظام کی نہ صرف قلعی کھول دی بلکہ ہمارے لڑتے جھگڑتے سیاستدانوں کی ایک اور مشکل بھی حل کردی ورنہ ہمارے سیاستدان مل جل کر نہ جانے پاکستان کو کہاں دھکیل رہے ہیں اس فیصلہ پر بات کرنے سے پہلے دو اور چھوٹی سی خبریں جو آنے والے دنوں میں دب جائیں گی پہلی یہ کہ بزدار حکومت میں سابق مشیر زراعت عبدالحئی دستی کے گھرسے انٹی کرپشن نے چھاپہ مار کر مختلف پر ٹھیکوں پر کمیشن اور لوٹ مار کے تقریبا ساڑھے بارہ کروڑ روپے سے زائدرقم برآمد کی ہے یہ صرف ایک عوامی خدمتگار کا حال ہے یہاں پر تو پٹواری سے لیکر اوپر تک یہی صورتحال ہے اور دوسری خبرانتہائی تکلیف دہ ہے کہ پاکستان ریلوے کی طرف سے ہاکی کھیلنے والی 27 سالہ شاہدہ رضا سہا بے روزگاری سے تنگ آکر مستقبل کے سہانے خواب پلکوں پر سجائے ترکی سے کشتی پر اٹلی جاتے ہوئے سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوگئی شاہدہ رضا پاکستان ویمن ہاکی ٹیم کی اہم رکن بھی رہیں شاہدہ رضا فٹبال کی بھی بہترین کھلاڑی تھیں اور ویمن فٹبال میں بلوچستان یونائیٹڈ کی نمائندگی کرتی رہیں ہمارے ہاں تو کھیلوں بھی بھی سیاست گھس آئے ہی ابھی پاکستان وویمن کرکٹ ٹیم کی کپتان نے بھی استعفی دیدیا ہے اسکے پیچھے کیا محرکات ہیں وہ بھی سامنے آجائینگے اب رہی بات الیکشن کی وہ سپریم کورٹ نے مسئلہ حل کردیا ہے جبکہ حکومت سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر الیکشن سے فرار چاہتی تھی حالانکہ ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال اتنی خراب نہیں ہے جتنی 2008اور 2013کے عام انتخابات کے دوران تھی جبکہ 2018 میں بھی صورتحال اتنی بہتر نہیں تھی 2008میں انتخابات 18 فروری کو ہوئے تھے اس وقت سیکیورٹی کی صورتحال انتہائی مخدوش تھی کیونکہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو انتخابات سے صرف دو ماہ قبل 27دسمبر 2007کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا تھا اکتوبر 2007میں کراچی میں بے نظیر بھٹو کے استقبال کےلئے منعقد ہونے والی پیپلز پارٹی کی ریلی میں دھماکے کے نتیجے میں 180سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے2007 جولائی میں لال مسجد آپریشن بھی دیکھا گیا تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)بھی عام انتخابات دسمبر 2007 سے محض دو ماہ قبل قائم ہوئی تھی 2007 میں 639دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 1940افراد ہلاک اور 2807زخمی ہوئے جنوری 2008 میں 39 حملوں میں 459 افراد ہلاک ہوئے جو زیادہ تر کے پی اور سابق فاٹا کے علاقے میں ہوئے۔ 2022کے دوران پاکستان کو 380 عسکریت پسند حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں 539 افراد ہلاک اور 836 زخمی ہوئے۔ اس کا مطلب ہے کہ 2007کے مقابلے 2022میں اموات میں 72 فیصد اور زخمیوں کی تعداد میں 70 فیصد کمی واقع ہوئی ہے صرف جنوری 2008 کے عام انتخابات سے پہلے اموات کی تعداد 2022کے پورے سال سے زیادہ تھی 2013میں عام انتخابات 11مئی کو ہوئے تھے اور اس سے پہلے کے چار ماہ میں ملک میں 366 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 1120افراد ہلاک اور 2151زخمی ہوئے اس کا مطلب ہے کہ ان چار مہینوں میں 2022 کے پورے سال کے مقابلے میں 52 فیصد زیادہ اموات اور 61 فیصد زیادہ زخمی ہوئے جبکہ 2013 کی انتخابی مہم کے دوران دہشت گردوں کا بڑا ہدف سیاسی جماعتیں تھیں 2013 کے الیکشن میں ہی 60روزہ انتخابی عمل کے دوران مختلف امیدواروں، انتخابی دفاتر، مختلف سیاسی جماعتوں کے جلسوں ، پولنگ سٹیشنوں اور الیکشن کمیشن کے دفتر پر 59حملوں میں کم از کم 119افراد ہلاک اور 438سے زائد زخمی ہوئے اے این پی، پی پی پی، ایم کیو ایم اور آزاد امیدوار 2013کی انتخابی مہم کے دوران دہشت گردوں کا بڑا ہدف تھے اس میں کوئی شک نہیں کہ 2021کے مقابلے میں 2022کے دوران دہشت گردانہ حملوں میں تقریبا 32فیصد اضافہ ہوا تاہم حالات 2008اور2013 کے مقابلے بہت بہتر ہیں پاکستانی سیکیورٹی فورسز بھی 2008اور 2013کے مقابلے بہتر تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں اس لیے اگر ان حالات میں سپریم کورٹ نے آئین کی پاسداری کرتے ہوئے ایک تاریخی اور لازوال فیصلہ دیا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے اس فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ نے انتخابات از خود نوٹس میں فیصلہ دیتے ہوئے 90 روز میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کروانے کا حکم دے دیا عدالت نے صدر مملکت کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے پنجاب جبکہ کے پی میں گورنر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے الیکشن کی تاریخ دینے کا حکم دیا سپریم کورٹ نے صدر کا 20 فروری کا حکم پنجاب کی حد تک درست قرار دیتے ہوئے کے پی اسمبلی کے لیے کالعدم قرار دے دیااور کہا کہ گورنر کے پی فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دیں اور تمام وفاقی اور صوبائی ادارے الیکشن کمیشن کو سیکورٹی سمیت ہر طرح کی امداد فراہم کریں چیف جسٹس نے 22 فروری کو انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لاجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ حکمران اتحاد نے بینچ میں شامل 2 ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر اعتراض اٹھایا تھا۔جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے بھی خود کو بینچ سے علیحدہ کرلیا تھا جس کے بعد چیف جسٹس نے دوبارہ 5 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا پنجاب اور کے پی انتخابات از خود نوٹس کی 4 سماعتیں ہوئیں اور گزشتہ روز 7 گھنٹے کی طویل سماعت میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ میں کہا کہ آئینی طور پر انتخابات 90 روز میں ہوں گے کوئی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا ہے انتخابات وقت پر نہیں ہوئے تو ملک میں استحکام نہیں آئے گا میں سمجھتا ہوں کہ ہماری عدلیہ جرات ،بہادری اور دلیری سے اپنا کام کررہی ہے ورنہ ہمارے سیاستدانوں کے کارنامے تو سب کے سامنے ہی ہیں جو قیام پاکستان سے لیکر اب تک لوٹ مار میں مصروف ہیں وہ دن نہ جانے کب آئیں گے جب ہمارا مزدور بھی خوشحال ہوگا ۔

Exit mobile version