تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا تو حکمران ہوں یا سیاست دان، ناکامی کی نمایاں وجوہ دو ہی رہیں۔ہوس اور احسان فراموشی ہوس دولت کی ہو طاقت کی یا اقتدار کی، مذموم اور ناپسندیدہ کہ انسان درست فیصلہ سازی کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے مگر یہ انسانی جبلت کہ طاقت کا مرکز بننے کے بعد ہر شخص اس پر دوام چاہتا ہے تاوقتیکہ فرشتہ اجل نہ آ جائے ۔ اس کمزوری پر قابو پا کر مقتدر رہنا دائمی عزت کا سبب بنتا ہے ۔ عمران خان بھی دیگر سیاسی راہنماﺅں کی طرح خوبیوں اور خامیوں کا مرقع، اسی طرح کامیابیاں اور ناکامیاں بھی ساتھ ساتھ۔اس میں صرف کپتان کا تخصص کرنا مناسب نہیں کہ معصوم عن الخطا صرف انبیا.مگر کچھ خامیاں انسان کی دیگر بے شمار خوبیوں پر پانی پھیر دینے کو کافی. کپتان کرکٹ کے میدان کے کھلاڑی تھے اور پھر فلاحی منصوبہ جات کے شوکت خانم کینسر ہسپتال نے انہیں بلندی عطا کی تو فلاحی پذیرائی انہیں سیاست میں لے آئی۔ہمارے ہاں کءنابغہ روزگار اس خوش فہمی کا شکار ہو کر ٹھوکر کھا گئیں ۔ کپتان بھی اگر فلاحی میدان میں رہتے تو ہیرو نہ صرف زندگی بھر بلکہ بعد از مرگ بھی،کہ پاکستانی سیاست ہر مزاج پر فٹ بیٹھتی ہے اور نہ ہر کس و ناکس کو راس آتی ہے۔کھیل کے میدان میں کامیابی اور فلاحی پراجیکٹ کی تکمیل سیاست میں کامیابی کی ضمانت نہیں۔مقبولیت کا کامیابی سے تعلق ہے اور نہ صلاحیتوں سے علاقہ، اگر مقبولیت کو حق اور سچ کی دلیل مانا جائے تو نواز شریف بارے کیا کہیں گے کہ جنہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی دوتہائی اکثریت ملی۔عمران خان کی مقبولیت بھی قبولیت ہی کی مرہون منت کہ مقبولیت کے انجیکشنز لگنے کے بعد معروف اور مقبول ہوئے۔اب اسے ان کی صلاحیتوں پر معمور کرنا مناسب نہیںمگر انکی بدقسمتی یہ کہ وہ احسان فراموشی کی عادت کے سبب قبل از وقت ریٹائرڈ ہرٹ ہو گئے۔سیاست ٹیسٹ کرکٹ کی طرح بردبرداری کی متقاضی مگر قبولیت کی ویاگرا انہیں کہاں چین لینے دیتی کہ جب فیض بھی ساتھ اور وہ بھی دہرا کہ ایک طرف بشری بی بی کی عملیات و توجہات تو دوسری طرف فیض حمید کی عنایات۔سو چشم تصور میں کپتان مقتدر رہنے کا دس سے پندرہ سالہ پلان ترتیب دے چکے تھے ۔مگر دیرینہ رفیقوں کہ جنہوں نے مشکل ترین وقت میں اپنے مال اور بہترین سیاسی حکمت عملی سے کپتان کی راہ کی رکاوٹوں کو دور کیا ان سے محسن کشی کپتان کے زوال کی حشت اول بنی گرچہ دیگر سیاست دان بھی پینترا بدلنے میں دیر نہیں کرتے مگر کپتان اس وصف میں منفرد و یکتا. ناکامی کے باقی اسباب بعد ازاں بنتے گئے مگر بنیادی وجہ وہی جو بیان کی گئی. اب خان غلطی پر غلطی کر رہے ہیں کہ ریاست کو ہرانا انکی زندگی کا مقصد اور اس کی خاطر وہ ہر قدم اٹھانے کو تیار. اقتدار سے علیحدگی کے بعد انکی ٹیم نے دو ہتھیاروں کا استعمال کیا اور خوب کیا. جھوٹ اور بہتان۔اب سول نافرمانی سے پہلے ایک خوفناک میڈیا کمپئین کی شنید ہے۔ پی ٹی آئی ماضی میں بھی غزہ اور جنگ زدہ علاقوں کی متاثرین کی تصاویر لگا کر اپنی مظلومیت ثابت کرنے کی کوشش کر چکی ہے۔جاںبحق ہونےوالے کارکنان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ نہ فرازنک تا کہ موت کی وجوہات کی مکمل تفصیلات سامنے آ سکتیں اور نہ کے پی کے کسی علاقے سے کوئی میڈیا رپورٹ کہ جس میں ڈی چوک میں مرنے والوں کے جنازے یا ان کے اہل خانہ بارے رپورٹ ہوا ہو۔اب شام اور دیگر جنگ زدہ علاقوں کے عقوبت خانوں اور خون آشام مناظر کو یکجا کر کے سوشل میڈیا پر چلائے جانے کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیںکہ نہ صرف عوامی ہمدردی کو سمیٹا بلکہ سول نافرمانی کی کال کو عوامی غیض و غضب سے موثر بنایا جا سکے مگر لگتا نہیں کہ سول نافرمانی کال موثر ثابت ہو اور کہیں یہ پی ٹی آئی کے تابوت میں آخری کیل ثابت نہ ہو۔ سیاست تحمل مزاجی کا کھیل رہا اس میں جلد بازی بھی نقصان دہ اور جارحانہ رویہ بھی جان لیوا۔پی ٹی آئی کو اور نہیں تو پاکستان پیپلز پارٹی سے پہ سبق سیکھنا چاہیے۔کپتان نے جن کے کندھوں کو استعمال کیا اور فیض یاب ہوئے آج انہی سے انکاری۔اب فیض حمید بھی قید تنہائی میں سوچتے ہوں گے کہ مرے تھے جن کےلئے وہ کیا کر رہے ہیں۔ظاہر ہے فیض حمید کے سیل فونز اور لیپ ٹاپ سے جو کچھ اور جتنا کچھ ملا ہے وہ اتنا ہے کہ نہ صرف بانی بلکہ پارٹی کی بدمست قیادت کہ جنہوں نے کپتان کی کشتی ڈبونے میں بھرپور کردار ادا کیا کےلئے کافی و شافی پی ٹی آئی کے سپورٹرز تو اب بھی نہیں مانتے مگر حقیقت یہی ہے کہ 9 مئی کا طوق ان کے گلے کا ایسا پھندا کہ جسے اتارنا اب انکے بس کی بات نہیں جیسے سانحہ ماڈل ٹان شریف برادران کے گلے کا طوق ۔یہ تو ہمارے نظام انصاف نے انہیں ڈھیل دے رکھی ہے وگرنہ باقر نجفی رپورٹ میں سب کچھ آشکار ہے۔سانحہ ماڈل ٹان کے ملزمان شکنجہ میں کب آتے ہیں یہ تو علم نہیں مگر بروز حشر قاتلوں کو اس قتل عام کا حساب دینا پڑے گا۔کپتان کی بدقسمتی کہ وہ سیاسی بصیرت کے قائل ہیں اور نہ فہم و فراست کے.مذاکرات کی میز پر بھی وہ دھمکیوں کی گن ساتھ رکھتے ہیں جبکہ مذاکراتی کمیٹی جو سنجیدگی سے اس کی قائل مگر بے اختیار ۔ ایسے میں ارباب اختیار مذاکرات کریں تو کس سے باوجود اس کے کہ سیاسی مشکلات کے حل کا یہ طریق مذاکرات اور وقت پر بہترین فیصلہ سازی ۔کیونکہ سیاست دانش مندی، بہترین فیصلہ سازی کا نام ہے اور جھپٹنے و پلٹنے کا کام،کہ ہر وقت جھپٹتے رہنے والوں کا سیاست کی دنیا میں کام نہیں۔اہل پاکستان کے لئے
اب تو زندوں میں نہیں رہا کوئی بھی سننے والا
میںنے اے’اہل قبور’ایک”غزل”لکھی ہے
پاکستان پائندہ باد