عام انتخابات کی آمد آمد اور ملک میں سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے،پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی،جماعت اسلامی نے اپنا اپنا انتخابی منشور دیدیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی منشورپہلے سے موجود ہے ،تمام سیاسی جماعتیں اپنے آپ کو ہی ملکی مسائل کابطور واحد حل پیش کرنے میں مصروف نظرآتی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور پر نظر ڈالی جائے تو اس میں تمام مسائل کا احاطہ کر کے اسکا حل دیا گیا،پارلیمنٹ کی بالادستی سے لیکر خارجہ پالیسی کے خدوخال کو واضح کیا گیا،ملک سے مہنگائی و اسکے اسباب کا خاتمہ اور روزگار کی فراہمی کیساتھ ملکی معیشت میں بہتری کاپلان بھی دیا گیا،10ہزارمیگاواٹ شمسی توانائی کی پیداوار،دہشتگردی کیخلاف زیروٹالرنس،اقلیتوں کا تحفظ،تیزی سے بڑھتی آبادی کو روکنا ،صحافیوں ومیڈیا ورکرز کیلئے ہیلتھ انشورنس،میڈیا سٹی کا قیام منشور کا حصہ ہے۔
پیپلز پارٹی کے انتخابی منشور کا سلوگن چنو نئی سوچ رکھا گیا ہے ، منشور میں گرین انرجی پارکس، پانچ سال میں تنخواہوں کا دگنا کرنا، 300یونٹ بجلی مفت، یکساں معیاری تعلیم، صحت کا مفت نظام،بھوک مٹاو¿ پروگرام، گھروں کی تعمیر، کچی آبادیوں کے مالکانہ حقوق، کسان کارڈ، بے نظیر انکم سپورٹ طرز کے پروگرام کا اجرا، قرض اجرا،یوتھ سینٹرز ،ہر ضلع میں یونیورسٹی شامل ہے۔
جماعت اسلامی کے انتخابی منشور میں قرآن وسنت کی بالادستی، قومی اداروں کومضبوط و منافع بخش بنانے،زرعی ٹیکس کی چھوٹ،وسائل کی منصفانہ تقسیم،میڈیا کی آزادی،سودی نظام کا خاتمہ،بلاسودقرضے،کسانوں کی ترقی،تنخواہوں میں مہنگائی کی شرح سے اضافہ،افواج کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنا،میرٹ کا نفاذ،تعلیم،صحت و روزگارسب کیلئے شامل ہے
سیاسی جماعتوں کے منشور پر نظر ڈالی جائے تو پیپلز پارٹی کا انتخابی منشور پہلے سے مختلف جبکہ مسلم لیگ ن کا بالکل الگ ہے،انتخابی منشور سیاسی جماعت کا قوم سے کیے وعدے کا نام ہوتا ہے ،اب سیاسی جماعتیں جیت کی صورت میں اپنے انتخابی منشور پر کس طرح اور کتنا عمل کر پاتیں ہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔تاہم یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انتخابی منشور پر پورااترنا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا ہمارے سیاسی لوگ بنا دیتے ہیں۔
یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی منشور کس کا اچھا ہے تولوگ کہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کا انتخابی منشور بہت اچھا اور جامع نظر آتا ہے تو میں نے ان کو جواب دیا کہ مسلم لیگ ن کا انتخابی منشورکیوں نہ اچھا ہو اس کو تیار کرنے والے بھی تو عرفان صدیقی ہیں جو کہ ایک پڑھی لکھی شخصیت ہے،عرفان صدیقی ہمارے ادارے کے سربراہ کے طور پرکام کرتے رہے ہیں۔انکا وژن اور شعور دیگر لوگوں سے بہتر ہے۔
میں ایک میڈیا گروپ کا چیئرمین ہوں ،ہمارے روزٹی وی پر روزانہ انتخابی حلقوں میں سروے کیے جا رہے ہیں جن کی بنیاد پر ابھی صورتحال واضح نظر نہیں آرہی،جلسوں کے حساب سے بلاول بھٹو آگے جا رہے ہیں جبکہ ووٹ بینک کے حساب سے تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان مقابلہ ہے،جیت اسی کی ہو گی جس کیساتھ آزاد امیدوارشامل ہونگے۔
ملک میں جس طرح کا سیاسی ماحول پیدا ہو چکا وزیراعظم پی پی،ن لیگ اور آزاد امیدوار تینوں میں سے کسی کا بھی بن سکتا ہے لیکن ایک چیز پاکستانیوںکے ذہن میں ہونی چاہئے کہ مضبوط ومستحکم حکومت بننا مشکل ہے اتحادی حکومت ہی بنتی نظر آرہی ہے اب اتحادی حکومت کتنا عرصہ چلتی ہے کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔
ملک کو جن بڑے چیلنجز کا اس وقت سامنا ہے شاید تاریخ میں پہلے کبھی نہ تھا ،ان چیلنجز سے نبردآزما ہونے کیلئے بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے جوکہ صرف اور صرف مضبوط حکومت ہی لے سکتی ہے،کمزور حکومت مسائل پر قابونہیں پاسکتی،گزشتہ اتحادی حکومت نے 16ماہ جو کارکردگی دکھائی تھی وہ ہم سب کے سامنے ہے