سینیٹر مشتاق احمد ایک ایسا نام جو اصول، جرت اور سچائی کا استعارہ بن چکا ہے۔ ایسے وقت میں جب ملک کے بیشتر سیاست دان ذاتی مفادات، اقتدار کی کشمکش اور وقتی فائدوں کے گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں، سینیٹر مشتاق احمد نے اپنے کردار، اپنی گفتگو، اور اپنی عملی جدوجہد سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر نیت خالص ہو تو پارلیمان کے ایوانوں میں بھی حق کی صدا بلند کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف جماعتِ اسلامی کی نمائندگی کا حق ادا کیا بلکہ پاکستانی قوم کے حقیقی ترجمان بن کر وہ کچھ کہہ دکھایا جو عوام کے دلوں میں تھا مگر لبوں تک نہیں آ پا رہا تھا۔ گزشتہ چند برسوں میں اگر پارلیمان میں کسی آواز نے ضمیر کی گونج پیدا کی ہے تو وہ مشتاق احمد کی ہے۔ وہ نہ دولت کی چمک سے مرعوب ہوئے، نہ حکومتی دباو سے خوفزدہ، اور نہ ہی کسی سیاسی سمجھوتے کے قائل۔ ان کی سیاست نظریے کی سیاست ہے، جس کی بنیاد ایمان، دیانت، اور خدمتِ خلق پر رکھی گئی ہے۔ ان کے بیانات میں نہ تو ذاتی مفاد جھلکتا ہے اور نہ سیاسی انتقام کی بو آتی ہے بلکہ ایک سچے پاکستانی اور درد مند مسلمان کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔مشتاق احمد نے ہمیشہ مظلوموں کی آواز بننے کو اپنا شعار بنایا۔ چاہے بات فلسطین کے مظلوموں کی ہو، کشمیریوں کی آزادی کی یا اپنے ملک کے اندر عام آدمی پر ڈھائے جانے والے ظلم کی، وہ ہر موقع پر سچائی کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ حالیہ دنوں میں ان کی جانب سے ایوانِ بالا میں دیے گئے خطابات نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ انہوں نے وہ سوالات اٹھائے جنہیں اکثر لوگ اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ انہوں نے وہ سچ بولا جسے اکثر لوگ زبان پر لانے سے گریز کرتے ہیں۔ اور یہی ان کی اصل قوت ہے بے خوفی، دیانت داری اور حق گوئی۔ آج جب سیاست الزامات اور مفادات کا کھیل بن چکی ہے، مشتاق احمد جیسے لوگ اس اندھیر نگری میں روشنی کی ایک کرن بن کر سامنے آتے ہیں۔ وہ نہ صرف سیاست کو عبادت سمجھتے ہیں بلکہ اسے خدمت کا ذریعہ بھی جانتے ہیں۔ ان کے نزدیک اقتدار کوئی منزل نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ وہ بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ پارلیمان عوام کی امانت ہے اور عوامی اعتماد کی لاج رکھنا ہر نمائندے کا فرض ہے۔ یہی سوچ انہیں دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔ قوموں کی تاریخ میں ایسے افراد ہمیشہ خاص مقام رکھتے ہیں جو وقت کے اندھیروں میں مشعل بن جائیں۔ سینیٹر مشتاق احمد نے جس انداز میں ہر نازک موقع پر اصولی موقف اپنایا، وہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال ہے۔ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر چلنے والے انسان ہیں۔ ان کی گفتگو میں جو ٹھہرا، سوچ اور درد نظر آتا ہے، وہ کسی وقتی جذباتیت کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک فکری تربیت اور عملی سچائی کی علامت ہے۔ان کا ہر بیان، ہر تقریر عوام کے دکھوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ جب وہ معاشی ناہمواری، بدعنوانی، عدالتی ناانصافی یا حکومتی غفلت پر بات کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ الفاظ کسی سیاسی جماعت کے ترجمان کے نہیں بلکہ قوم کے دل سے نکلنے والی صدا ہیں۔ ان کی بات میں اثر اس لیے ہے کہ وہ خود سچ پر قائم ہیں۔ وہ جس بات کا مطالبہ دوسروں سے کرتے ہیں، اس پر خود بھی عمل پیرا ہیں۔ یہی ان کی اخلاقی برتری ہے۔سینیٹر مشتاق احمد کی کامیابی صرف ان کی نہیں بلکہ اس نظریے کی کامیابی ہے جو حق اور انصاف پر مبنی ہے۔ ان کی جرات مندانہ تقریروں نے ثابت کر دیا کہ اگر نیت صاف ہو تو ایک فرد بھی نظام کو ہلا سکتا ہے۔ وہ جب ایوان میں بولتے ہیں تو ان کی بات صرف سیاست نہیں بلکہ شعور، آگاہی اور اصلاح کی دعوت ہوتی ہے۔ ان کا انداز دلیل پر مبنی ہے، ان کے لہجے میں وقار ہے، اور ان کے دل میں قوم کی محبت رچی بسی ہے۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں عوام طویل عرصے سے مایوسی، بدعنوانی اور عدم انصاف کے دائرے میں پھنسی ہوئی ہے، وہاں سینیٹر مشتاق احمد جیسے رہنما امید کا چراغ ہیں۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ سیاست اگر نیت اور ایمان کے ساتھ کی جائے تو یہ سب سے بڑی عبادت بن سکتی ہے۔ انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ عزت صرف کرسی سے نہیں بلکہ کردار سے ملتی ہے۔ ان کا طرزِ سیاست نوجوان نسل کے لیے سبق ہے۔ آج کے نوجوان جب سیاست کو بدعنوانی اور مفاد پرستی سے جوڑتے ہیں تو مشتاق احمد کا کردار انہیں یہ یقین دلاتا ہے کہ اب بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو سیاست میں آ کر قوم کی خدمت کر سکتے ہیں، جو پارلیمان میں بیٹھ کر عوامی درد کو زبان دے سکتے ہیں، جو اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر سچائی کا علم بلند رکھ سکتے ہیں۔ ان کی پارلیمانی کارکردگی ایک آئینہ ہے جس میں دیگر سیاست دانوں کو اپنا چہرہ دیکھنا چاہیے۔ وہ بغیر شور شرابے کے دلیل سے بات کرتے ہیں، بغیر اشتعال کے سچ بولتے ہیں اور بغیر مفاد کے قوم کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جو کسی بھی جمہوری نظام کو مضبوط بناتا ہے۔اگر آج عوام انہیں خراجِ تحسین پیش کر رہی ہے تو یہ ان کی اصول پسندی اور سچائی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے دکھا دیا کہ اگر نیت میں اخلاص ہو تو اقتدار کے ایوانوں میں بھی حق کی آواز گونج سکتی ہے۔ ان کی جرات مندانہ موقف نے عوام کے دلوں میں ایک نئی امید جگائی ہے کہ شاید اب بھی کچھ لوگ باقی ہیں جو وطن، ایمان اور انصاف کے لیے کھڑے ہیں۔ ینیٹر مشتاق احمد نے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ انہوں نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ سیاست منافقت نہیں بلکہ دیانت کا دوسرا نام ہے۔ ان کی موجودگی ایوان میں ایک نعمت ہے، اور ان جیسے سچ بولنے والے لوگوں کی ضرورت آج پاکستان کو پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کی باتوں میں سچائی کی وہ طاقت ہے جو دلوں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آج جب ہم اپنے معاشرے، نظام اور سیاست پر نظر ڈالتے ہیں تو مشتاق احمد جیسے کردار ہمیں بتاتے ہیں کہ سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ اب بھی امید باقی ہے، اب بھی سچائی زندہ ہے، اور اب بھی وہ لوگ موجود ہیں جو اپنی قوم کے لیے جیتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی جماعت یا حلقے کے نہیں، پوری قوم کے سرمایہ ہوتے ہیں۔سینیٹر مشتاق احمد نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ دیانت، اخلاق اور حق گوئی محض الفاظ نہیں بلکہ عمل کی طاقت رکھتے ہیں۔ ان کا کردار ایک عہد ہے ایک وعدہ کہ اگر ہم بھی اپنے حصے کی سچائی سے کام لیں تو وطن کے حالات بدل سکتے ہیں۔آخر میں بس اتنا کہنا کافی ہے کہ سینیٹر مشتاق احمد جیسے باکردار اور نڈر رہنما پاکستان کی اصل پہچان ہیں۔ انہوں نے اس قوم کے ہر باضمیر فرد کے دل میں یہ یقین تازہ کیا ہے کہ حق ہمیشہ غالب آتا ہے، اور جو اللہ کے لیے کھڑا ہو، وہ کبھی اکیلا نہیں ہوتا۔ ان کی جرات، ان کا کردار اور ان کی سچائی اس وطن کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ واقعی، انہوں نے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد نے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کردیا
