Site icon Daily Pakistan

شہر خموشاں کی خبریں

پاکستان اور پھر لندن میں عرصہ دراز تک جرنلزم سے منسلک رہنے والے ہمارے ساتھی وقار زیدی پچھلے سال جوانی میں ہی سب کو چھوڑ کر وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی کبھی واپس نہیں آتا بیوہ سمیت چھوٹے چھوٹے تین بچے رہ گئے ہیں۔ جنازے اور تدفین پر جہاں عزیز واقارب آئے وہاں صحافیوں کی بھی خاصی تعداد نے شمولیت اختیار کی میرے نزدیک صحافی ہی صحافیوں کی برداری ہوتے ہیں ،جنہیں خوشی اور غمی میں اپنے ساتھیوں کی ایسے موقعوں پر سب سے پہلے بڑھ چڑھ کر مدد کرنی چاہیئے۔ برطانیہ میں ایک میت کی مقامی قبرستان میں تدفین کے لئے ایک اندازے کے مطابق تین ہزار پونڈز یا تقریبا دس لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے اور جو لوگ پاکستان میں میت لے کر جاتے ہیں میت کو کارگو کرنے میں بھی تقریبا 12 سو پونڈز کے حساب سے خرچ ہوتے ہیں جبکہ میت کے ساتھ جانے والے فیملی کے افراد کے ہوائی جہاز کے ٹکٹوں کی قیمتیں الگ ادا کرنی ہوتی ہیں، چوہدری شجاعت حسین جب تین ماہ کےلئے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے تو انہوں نے اورسیزز پاکستانیوں کو یہ سہولت فراہم کی تھی کہ پی۔آئی اے تارکین وطن کی میت فری میں پاکستان لے جائے گی لیکن چونکہ پی آئی اے کی یوکے یورپ اور امریکہ کا فلائٹس آپریشن جزوی طور پر بند ہے تو تاحال یہ سہولت حاصل نہیں رہی۔وقار زیدی کی تدفین کے دوران لندن کے نواحی ٹاو¿ن (Rickmansworth) کے ایک قبرستان میں قبروں کی دیکھ بھال کا معیار بھی برطانیہ کے دیگر شہروں کے قبرستانوں کی طرح صفائی ستھرائی کے اعلیٰ کے انتظامات قابلِ رشک تھے ۔خوبصورت پھولوں اور درختوں کے درمیان یہاں مکینوں کے ناموں کے کتبے آویزاں ہیں جو لوکل گورنمنٹ کی جانب سے مستقل طور پر ملازمین کل وقتی قبرستان کی دیکھ بحال کے لئے مامور ہیں۔ برطانیہ میں ہر قبر اور یہاں مدفون افراد کا ایک ڈیٹا بیس موجود ہوتا ہے کوئی اجنبی ناواقف اگر فوت ہونے والے اپنے کسی دوست یا عزیز کی قبر تلاش کرنا چاہے تو انتظامیہ کی مدد سے یا قبرستان کا نقشہ دیکھ کر اس کی قبر تک پہنچ سکتا ہے۔یاد رہے کہ برطانیہ میں قبرستانوں میں مسلمانوں نے اپنے پیاروں کو دفنانے کےلئے الگ جگہیں مختص یا الاٹ کروا رکھی ہیں۔ قبرستان ایک ہی ہوتا ہے جہاں عیسائی اور مسلمان اور دیگر دفن ہوتے ہیں جبکہ یہودیوں نے اپنے الگ جیوئش قبرستان مختص کررکھے ہیںجو لوگ کسی مذہب یا خدا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے یا یوم الحساب سے انکاری یا منکر ہیں تو ان کے لئے میت کو جلانے اور ان کی راکھ کو نام کے کتبے کے ساتھ دفنانے کے لئے علیحدہ الگ شمشان گھاٹ یا مردوں کو جلانے کی جگہیں ہیں۔ پہلے برطانیہ و یورپ میں آباد پاکستانیوں میں یہ رحجان عام تھا کہ میت پاکستان بھیجی جاتی تھی، اب یہ سلسلہ تقریباً رک گیا ہے اسکی ایک وجہ پاکستان سے تعلق پہلے کی بانسبت کمزور ہے دوسرا فیملیز کے لئے سفری مشکلات زیادہ بڑھ گئی ہیں ،تیسرا فوت ہونے والے کی فیملیز کی خواہش ہوتی ہے کہ فوت ہونے والے اپنے پیاروں کی قبر کا گاہے بگاہے وزٹ کریں اور انہیں یاد رکھا جائے۔خیر وقار زیدی کی تدفین کے دوران ہمارے جرنلسٹ دوست رضا سید نے ہمیں اسی قبرستان میں چند قدموں کے فاصلے پر ممتاز فلم اداکارہ و فنکارہ شمیم آرا بیگم کی قبر بھی دکھائی، جن کا دسمبر 2016 میں لندن میں انتقال ہو گیا تھا۔ ہم نے ان کی مغفرت کے لئے دعا کی اور اندازہ لگایا کہ شاید ان کے یہاں دفن ہونے کے بعد ان کا کوئی مداح تو درکنار ان کا کوئی عزیز بھی وہاں شاید نہیں گیا ہوگا۔ اللہ مغفرت فرمائے یہی دستور دنیا ہے ۔ برحال شمیم آرا کی قبر کی دیکھ بھال احسن طریقے سے حکومت برطانیہ کر رہی ہے۔ یہاں ایک سبق ان پاکستانیوں کےلئے بھی ہے جو ہمیشہ بضد ہوتے ہیں اور وصیت چھوڑ کر جاتے ہیں کہ ہمیں مرنے کے بعد پاکستان میں جاکر فلاں کے پہلو میں دفنایا جائے حالانکہ فوت ہونے کے بعد کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان کہاں دفن ہو ،ساری زمین اللہ تعالیٰ کی ہے اور سزا اور جزا میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کہاں کس ملک میں دفن ہے ۔ورثا کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو بہتر ہو وہ فیصلہ کریں۔ یہاں میں دو سال قبل فروری میں اپنے ساتھی اور سینیئر صحافی مبین چوہدری کی میت لے کر جب لاہور ان کی فیملی کے ہمراہ گیا تو لاہور شہر میں جس قبرستان میں مرحوم مبین چوہدری کی تدفین ہوئی ،وہاں تو ہر طرف یہ صاف نظر آرہا تھا کہ قبروں پر قبریں بنائی گئی ہیں۔ تدفین کے وقت ہر کوئی دوسرے کو یہ کہہ رہا تھا کہ دھیان سے تمہارے پاﺅں کے نیچے قبر ہے جبکہ ٹوٹی پھوٹی قبریں عام تھیں ،کتے چیلیں اور گدھ قبرستان کے احاطہ میں موجود تھیں جبکہ آورہ لونڈے لپاڑے نشی بھی آگے پیچھے نظر آرہے تھے ۔لاہور شہر میں ہاوسنگ سوسائٹیاں اتنی بن رہی ہیں کہ افسوس قبرستانوں کے لئے جگہ بھی نہیں بچی۔ یہ کام لوکل گورنمنٹ کے ہوتے ہیں جنہوں یہ انتظام و انصرام کرنے ہوتے۔البتہ آرمی کے قبرستان صاف ستھرے ہیں۔ہمارے ملک کے قبرستانوں میں یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ سب سے زیادہ بچوں کی گمنام قبریں ہوتی ہیں جبکہ برطانیہ میں ایسا نہیں ہے۔ جنگ لندن کے سابق ایڈیٹر میرے استاد محترم ظہور نیازی صاحب نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں شہر کے قبرستانوں میں اکثر پہلی والی قبروں پر دوسری قبریں بنائی جاتی ہیں حتی کہ ان کی اپنی والدہ کی تدفین کراچی میں کی گئی تھی ایک سال کے بعد وہ جب دوبارہ لندن سے کراچی گئے تو ان کی والدہ کی قبر غائب تھی۔ ہم بھائیوں نے 2004 سے قبرستان کے لئے ایک کنال جگہ راولپنڈی شہر میں لے رکھی ہے۔ جہاں میری والدہ اور دو بھائیوں کی قبریں ہیں لیکن ہماری جگہ پر گزشتہ سال تک11 اور قبریں بن گئی ہیں۔ اللہ معاف کرے کسی کو کیسے اپنے پیاروں کو دفنانے سے منع کیا جائے۔ ہاو¿سنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں لیکن قبرستانوں کےلئے جگہ نہیں۔ میں جب بھی پاکستان جاتا ہوں تو اپنے قبرستان میں اپنی ماں اور بھائیوں کی یاد اور دعا کےلئے حاضری دیتا ہوں لیکن صورتحال دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ بحریہ ہاوسنگ سوسائٹی کے قبرستانوں کی حالت قابل تحسین ہیں،یہاں کے قبرستانوں میں انتظامات بالکل یوکے یورپ کی طرح کے ہیں، آجکل یہ عام مشاہدے میں آیا ہے کہ قبرستان میں مردوں کی تدفین کے بعد اذان دی جاتی ہے جس کا مجھے کوئی شرعی طور پر ثبوت نہیں ملا دوسرا یہ کہ قبرستانوں پر لاوڈ سپیکروں پر قران مجید کی تلاوت کی ریکارڈنگ سنائی دیتی ہے اس میں کیا حکمت ہے میری سمجھ سے باہر ہے جبکہ قران مجید کو قبروں کے پاس رکھ دیا جاتا ہے، میرے نزدیک یہ بھی اللہ کی کتاب کی بے حرمتی کے زمرے میں آتا ہے، قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی کتاب ضابطہ حیات ہے جس کو پڑھ کر اس پر عملدرآمد کرکے ہم اپنی زندگیاں گزار سکتے ہیں، اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ہم سب نے مر جانا ہے اور مر جانے کے بعد اپنے اعمال ہمارے ساتھ جائیں گے میں اس اختلافی مسئلے کو بھی زیر بحث نہیں لانا چاہتا کہ قبروں پکی نہیں ہونی چاہئے نام کے کتبے ہونے چاہئے یا نہیں میرے لئے یہ اہم ہے کہ ہم زندگی میں تو اپنے والدین بہن بھائیوں اولاد اور دوستوں سے بہت کچھ تقاضا کرتے ہیں تو ان کے مرنے کے بعد ان کی آخری آرام گاہ کی عزت و توقیر کے تو پہرے دار بنیں ،پاکستان میں یہ خبریں عام ہیں کہ لاشوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے اعضا نکال لیے جاتے ہیں کفن چوری ہوتے ہیں واللہ عالم۔

Exit mobile version