دنیا میں پارلیمانی نظام اپنی جگہ ایک اعلیٰ تصور ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر معاشرے کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ امریکہ میں صدارتی نظام کامیاب ہے تو برطانیہ میں پارلیمانی نظام۔ ترکی نے دونوں نظاموں کو آزمایا اور آخرکار صدراتی ڈھانچے کی طرف گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ پارلیمانی نظام ہمارے سماجی اور سیاسی ڈھانچے سے زیادہ ہم آہنگ نہیں ہو سکی ۔ یہاں ہمیشہ اکثریت خرید و فروخت کا کھیل بنی رہی۔ پارٹیاں ذاتی جاگیروں کی شکل اختیار کر گئیں اور ووٹ عوامی خدمت کے بجائے برادری، زبان اور علاقے کی بنیاد پر ڈالے جانے لگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار میں آنیوالی حکومتیں عوام کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنی بقا کی جنگ لڑتی رہیں۔اس پس منظر میں یہ تصور غیر حقیقی نہیں کہ پاکستان میں صدارتی نظام ایک زیادہ موزوں اور نتیجہ خیز متبادل ہو سکتا ہے۔ صدر براہِ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہو، عوامی مینڈیٹ کی اصل طاقت اس کے پاس ہو اور وہ کسی ایوان کے ووٹِ اعتماد یا کسی بلیک میلنگ کا محتاج نہ ہو۔ اس طرح صدر پورے ملک کو یکساں نظر سے دیکھنے کا اہل ہوگا، وہ کسی ایک حلقے یا مخصوص اکثریت کا پابند نہ ہوگا بلکہ براہِ راست پورے ملک کی نمائندگی کریگا۔ اصل مسئلہ نیت، شفافیت اور ادارہ جاتی توازن کا ہے ۔ پاکستان کیلئے محض صدراتی نظام کافی نہیں ہوگا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پورے انتظامی ڈھانچے کو ازسرِنو ترتیب دینا ہوگا۔ اس ملک میں صوبائی تقسیم ہمیشہ ایک تنازعہ بنی رہی ہے ۔ صوبائی حقوق کے نام پر سیاستدانوں نے عوام کو بانٹنے کا کام کیا۔ لسانیت، قومیت اور فرقہ واریت کو ہوا دی گئی۔ اس مسئلے کا ایک بہترین حل یہ ہو سکتا ہے کہ صوبوں کی بجائے ملک کو ڈویژن کی بنیاد پر چلایا جائے۔ ہر ڈویژن ایک انتظامی یونٹ ہو، جس کا ناظم براہِ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو۔ پھر یہ سلسلہ ضلع، تحصیل اور یونین کونسل تک پھیلا دیا جائے۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلدیاتی نظام ابتدائی طور پر متعارف کرایا گیا تھا، جس میں پہلی بار عوام کو یہ احساس ہوا کہ ان کے مسائل مقامی سطح پر حل ہو سکتے ہیں۔ اگر ایک ڈویژن، ضلع ،تحصیل اور یونین کا ناظم براہِ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہوگا تو وہ حقیقی معنوں میں عوامی نمائندہ ہوگا۔ وہ اپنے حلقے کے لوگوں کے مسائل کو بخوبی سمجھتا ہوگا اور براہِ راست جواب دہ بھی انہی کو ہوگا۔ یہ نظام اس ملک کیلئے اس وجہ سے بھی موزوں ہے کہ یہاں جغرافیائی تنوع اور مسائل کی نوعیت ہر علاقے میں مختلف ہے۔ مقامی سطح پر اختیار دینے سے مرکز پر بوجھ بھی کم ہوگا اور عوام کو براہِ راست سہولتیں بھی پہنچیں گی۔صدارتی نظام کے ساتھ ساتھ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک میں اختیارات کا حقیقی سرچشمہ عوامی نمائندے ہوں۔ ادارے اپنا کام کریں مگر عوامی خدمت کے فیصلے عوامی نمائندے کے ہاتھ میں ہوں۔ اگر صدر براہِ راست منتخب ہوگا تو اس کے ساتھ ساتھ بلدیاتی سطح تک عوامی نمائندے بھی براہِ راست ووٹ سے منتخب ہوں، اس طرح ایک نیچے سے اوپر تک عوامی زنجیر قائم ہو جائیگی۔پاکستان کی اصل بیماری غیر یقینی صورتحال ہے۔ کبھی پارلیمان ٹوٹنے کا خدشہ، کبھی حکومت جانے کی تلوار، کبھی اسمبلیاں تحلیل، کبھی وزیر ِاعظم کو عدالت سے نااہلی، اس غیر یقینی نے سرمایہ کار کو اعتماد نہیں دیا ، نوجوان کو مستقبل کی امید نہیں دی، کسان کو کھیت سے حاصل ہونیوالی محنت کی ضمانت نہیں دی۔ ایک مضبوط اور واضح نظام کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ صدارتی نظام اس غیر یقینی کو ختم کرنے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے، بشرطیکہ اس کے اندر شفافیت اور چیک اینڈ بیلنس کا مکمل انتظام ہو۔نوجوان پاکستان کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں۔ آج سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری ہے۔ لاکھوں ڈگری ہولڈر نوجوان یا تو گھروں میں بیٹھے ہیں یا غیر ممالک کی خاک چھاننے پر مجبور ہیں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب تعلیم کا نظام عملی نہ ہو، جب ڈگری محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہو اور اس کے بعد روزگار نہ ملے۔ اگر ملک میں پرائمری سے یونیورسٹی تک تعلیم مفت ہو اور یکساں نصاب ہو تو ہر نوجوان کو ایک جیسا موقع ملے گا۔ مگر یہ تعلیم صرف کتابی نہ ہو بلکہ عملی ہنر سے جڑی ہو تاکہ ڈگری لینے کے بعد نوجوان خود کفیل ہو سکے۔ جب روزگار کے مواقع بڑھیں گے تو بیروزگاری کا خاتمہ ہوگا۔ مہنگائی کے عفریت کو قابو کرنے کیلئے صرف زبانی دعوے کافی نہیں ۔ ایک موثر چیک اینڈ بیلنس نظام بنانا ہوگا۔ ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور کرپشن کیخلاف سخت اقدامات کیے بغیر یہ ممکن نہیں۔جب عام آدمی کو اشیا ضرورت بہتر نرخوں پر ملنے لگیں گی تو اس کا اعتماد نظام پر بڑھے گا۔یہ تمام اقدامات مل کر ہی ملک میں ایک ایسا ماحول بنا سکتے ہیں جہاں امن و سکون قائم ہو، غیر یقینی ختم ہو اور ہر شخص اپنے مستقبل کے بارے میں مطمئن ہو۔ ایک شفاف صدارتی نظام، ڈویژن اور بلدیاتی سطح پر براہِ راست منتخب نمائندے، تعلیم اور صحت کا فری نظام، بیروزگاری کا خاتمہ، مہنگائی پر قابو اور ادارہ جاتی اصلاحات۔ اگر یہ سب ایک مربوط منصوبہ بندی کے تحت کیا جائے تو پاکستان صرف ایک خوشحال ملک نہیں بلکہ ایک مستحکم ریاست بھی بن سکتا ہے۔پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں ہمیشہ وقتی فیصلے کیے گئے ، ذاتی اور جماعتی مفادات کو ترجیح دی گئی اور عوام کے حقیقی مسائل پسِ پشت ڈال دیے گئے۔ اگر اب بھی ہم نے اصلاحات کی طرف قدم نہ بڑھایا تو آنیوالی نسلیں بھی انہی مسائل میں جکڑی رہیں گی۔ لیکن اگر ہم نے جرأت کیساتھ صدارتی نظام کو اپنایا اور عوامی نمائندگی کو مقامی سطح تک مضبوط کیا تو یہ ملک ایک نئی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
صدارتی اور بلدیاتی نظام ۔۔۔!
