گزشتہ سے پیوستہ
135ءمیں رومیوں (عیسائیوں)نے پورے فلسطین سے یہودیوں کونکال دیا۔ پھر فلسطین میں اصل باشندے عربی النسل لوگ آباد ہو گئے۔ جیسے وہ آٹھ سو برس پہلے آباد ہوئے تھے۔اسلام کے آنے سے پہلے فلسطین میںیہی عربی قبائل آباد تھے۔ فلسطین میںیہودیوں کی آبادی قریب قریب بالکل نا پید تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک تو یہودی ابتدا میں نسل کُشی کر کے فلسطین میں زبردستی آباد ہوئے تھے دوم شمالی فلسطین میں چار سو برس اور جنوبی فلسطین میں آٹھ سو برس رہے جبکہ فلسطین کے اصل باشندے، عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال اور جنوبی فلسطین میں دو ہزار سال سے آباد چلے آ رہے ہیں ۔ اس کے باوجود یہودی کہتے ہیں کہ فلسطین ان کے باپ داد کی میراث ہے جبکہ یہ تاریخی فراڈ ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ایک تاریخی بات کہی تھی:۔
ہی خاک فلسطین پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق کیوں نہیں اہل عرب کا
یہودی صہیونی تحریک( یعنی یہودی قومی تحریک) والے کہتے ہیں ان کو حق ہے کہ فلسطین کے قدیم باشندوں کو اسی طرح نکال باہر کریں اور خود ان کی جگہ پر بس جائیں جس طرح تیرہ سو برس قبل مسیح میں انہوں نے کیا تھا۔ یعنی قدیم عرب باشندوں کو فلسطین سے زبردستی نکال دیا تھا۔دوسرا جھوٹ کہ مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی ہے ۔ جبکہ یہ بھی چھوٹ ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے۔ کہ حضرت میمونہ ؓ نے رسول اللہ سے معلوم کیا کی دنیا میں پہلے مسجد کون سی بنی۔ رسول اللہ نے بتایا کہ خانہ کعبہ۔حضرت میمونہؓ نے معلوم کیا اس کے بعد کون سی مسجد بنی ۔ رسول اللہ نے بتایا مسجد اقصیٰ۔حضرت میمونہ ؓ نے دریافت کیا۔ ان دونوںکتنے سال کا فرق ہے۔ رسول اللہ نے بتایا چا لیس سال کا۔ یہ سب کو معلوم ہے خانہ کعبہ حضرت آدم ؑ نے بنایا تھا۔اس کے چالیس سال بعد مسجد اقصیٰ بنی ۔ اب حضرت سلیمانؑ کا زمانہ تو بہت ہی بعد کا ہے۔ جو یہودی کہتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ نہیں یہ ہیکل سلیمانی ہے۔ سلیمان ؑ نے یقیناً فلسطین میں کسی اور جگہ ہیکل سلیمان ؑبنایا ہوگا ۔ تم مسجد اقصی کا پیچھا چھوڑو فلسطین میں کسی اور جگہ ہیکل سلیمانی بنا لو۔ مگر مسئلہ کچھ اور ہے اور وہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کومسلمانوں کو ان کے وطن سے نکال کو خود آباد ہونا ہے۔ تیسرا جھوٹ کہ ہم اللہ کے چہتے ہیں۔قرآن اسے اس طرح بیان کرتا ہے کہ یہود کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے چہتے ہیں تو پھر ان کہو کہ جلد مرنے کی تمنا کرو۔ اللہ سے ملنے کی خواہش کرو۔ مگر یہ ایسا نہیںکریں گے۔ بلکہ ان میں تو ہر ایک ہزار ہزار زندہ رہے کی خواہش رکھتا ہے۔ قرآن تو کہتا ہے جس نے توحید اختیار کی، یعنی اللہ پر ایمان لیا ، اللہ کے رسولوںؑ کی تعلیمات پر عمل کیا، وہ اللہ کا پسندیدہ ہے ۔ چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ یہودی تو اللہ سے شرک کرتے ہیں حضرت عزیرؑ کا اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔ اللہ کے نبیوںؑ کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں۔ ان کے بقول ان کی مذہبی کتاب میں لکھا ہے کہ ان پر غیر یہودی کا مال اسباب ہتھیا لینا جائز ہے۔ ان پر کوئی گرفت نہیں۔ یہ دوسرے سارے انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔یہودیوں نے اپنی عوام کے دماغوں میں یہ بات بیٹھا دی ہے کہ یہ جنگ آخری جنگ ہے۔ہم نے اپنے پروگرام کے مطابق گریٹر اسرائیل بنانے ہے۔ جس کی سرحدیںدریائے نیل سے فرات تک ہیں۔ یہ سلوگن اسرائیل کی پارلیمنٹ کے ماتھے پر کندہ ہے کہ” اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہے“۔ کچھ دن پہلے یہی بات اسرائیل کے وزیر خزانے نے بین القوامی یڈیا میں نشر کی ہے۔ اس میں اُردن، سعودی عرب، مصر،عراق شامل ہیں۔ گریئٹراسرائیل بعد اسرائیل کا مسیح آئے گا اور اسرائیل کو ساری دنیا پر حکومت دلائے گا۔ اس وقت فلسطینی اکیلے ہی لڑ رہے ہیں۔ہمارا پختہ ایمان ہے کہ جس طرح اللہ نے فاقہ مست افغانوں کو اڑتالیس نیٹو اتحادیوں کو اِن کی سرخنہ امریکا سمیت شکست فاش دی ہے۔ اسی طرح فلسطین کے حماس کو بھی فتح نصیب کرائے گا۔حماس کی اللہ کے فرشتے مدد کر رہے ہیں۔ اسرائیل شکست کھا چکا ہے۔ صرف اس نے اپنے شکست کا اعلان کرنا ہے۔ عرب ملک جن پر اسرائیل اعلانیہ قبضہ کرنا چاہتا ہے، ڈر کر دبکے بیٹھے ہیں۔دیگر مسلمان ملک جن کو بھی اسرائیل اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔امریکی کے ڈر سے خاموش ہیں۔ اپنے قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ اور انبیاءکی زمین فلسطین سے اسرائیل کا قبضہ چھوڑانے کے لیے اس وقت سنہری موقعہ کو ضائع کر رہے ہیں۔ ایران اپنے پراسکیز، لبنان، یمن، عراق، شام اور خود میدان میں ڈٹا ہوا ہے۔ امریکا اور مغربی ملکوں نے ایران کے اسرائیل پر میزائیل حملے کی سزا کے طور پر پابندیاں لگائی ہوئی ہیں مگر ایران دیگر مسلمان ملکوں کی طرح خوف زدہ نہیں۔ اسرائیل کو للکار رہا ہے۔ اسرائیل جلد دنیا سے مٹنے والا ہے۔اسرائیلی طاغوت مکڑی کے جالے سے زیادہ نہیں۔ صرف جہاد فی سبیل اللہ کی ایک ضرب سے وہ ختم ہونےوالا ہے۔ اب مسلمانوں کو چاہےے کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کا جھنڈا بلند کر کے میدان میں آئیں ۔ اللہ کی مدد ان کا انتظار کر رہی ہے۔ فتح حماس اور مسلمانوں کی ہے۔ شکست یہود کا مقدر ہے۔ ان شاءاللہ
طوفان اقصیٰ اورمسلمان حکمرانوں کی خاموشی
