Site icon Daily Pakistan

عالمی امن کےلئے بڑا خطرہ۔بڑھتا اسلاموفوبیا

عالمی عدالت انصاف نے گزشتہ روز غزہ میں جاری نہتے فلسطینوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں بڑھتا اسلاموفوبیا سکہ رائج الوقت بن چکا ہے ۔اسی ضمن میں یہ بات انتہائی توجہ طلب ہے کہ بھارت کے جنونی ہندو گروہ عرصہ دراز سے رسول پاک ﷺ کی شان کے حوالے سے گستاخیوں کے مرتکب ہوتے رہے ہےں اور یہ سلسلہ ان دنوں مزید شدت اختیار کر چکا ہے کیوں کہ بھارت کے 5صوبوں میں ہونے والے حالیہ صوبائی انتخابات کے نتائج سامنے آچکے ہےں جن کے مطابق راجستان ،مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ میں بی جے پی جیت چکی ہے جس کے بعد سے تو آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں، کشمیریوں، سکھوں ،عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کی بابت زہر افشانی کرنا ایک رجحان کی شکل اختیار کر گیا ہے۔اسی تناظر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماﺅں نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا ۔علاوہ ازیں پاسبانِ حُریت جموں کشمیرکے چیئرمین عُزیر احمد غزالی نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سرینگر میں بھارتی ہندو طالب علموں کی جانب سے خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کے بارے میں گستاخانہ پوسٹ کو ناقابلِ معافی جرم قرار دیتے ہوئے و¿اس عمل کو ہندوتوا کی اسلام دشمنی کی بدترین شکل قرار دیا اورکہا کہ ہندو جنونی کئی بار اسلامی شعائر پر حملے اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز جرائم کرچکے ہیں۔ نبی آخر الزمان ﷺکی شان مقدس میں گستاخی صرف کشمیری مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ عُزیر احمد غزالی نے کہا کہ بھارت کے اندر نریندرہ مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتاپارٹی کی حکومت اور اسکی سرپرستی میں ذیلی ہندو انتہاءپسند تنظیموں راشٹریہ سیوک سنگھ، بجرنگ دل، ویشوا ہندو پریشد اور دیگر مسلم دشمن تنظیموں کے دہشت گرد افراد نبیو¿ پاک صلی اللہ علیہ وسلم جیسی مقدس ترین ہستی کی شان میں گستاخیاں کرکے اپنی جاہلیت اور گمراہی کا اظہار کرتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ نبی مہربان کی حُرمت کا تحفظ ہر مسلمان پر اسکی جان اور ہر ایک چیز سے بڑھ کر ہے کیوں کہ دین اسلام اور نبی کریم کی شان اقدس کی بات آئے گی تو ہر مسلمان اس پر اپنی جان قربان کرنے سے کبھی بھی دریغ نہیں کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نبی کریم ﷺ کی شان مبارک میں گستاخی ایک دانستہ سازش ہے جسے بالکل بھی برداشت نہیں کیاجاسکتا۔ انکا کہنا تھا کہ بھارت بھر میں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے مسلسل توہین رسالت کے واقعات بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ مبصرین کے مطابق اسی تناظر میں کون واقف نہےں کہ بھارت کے طول و عرض میں سبھی مذہبی اقلیتوں کی دل آزاری کرنا ایک معمول کی بات بن چکی ہے ۔اسی ضمن میں مذہبی عبادت گاہوں کی بے حرمتی مودی کے دور حکومت میں ہر آنےوالے دن کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہے ۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ 1991 میں ہندوستانی حکومت نے عبادت گاہوں کا ایکٹ (1991) پاس کیا جس کے مطابق ”مسجد، مندر، چرچ یا کوئی اور عبادت گاہ ایک ہی مذہب کو برقرار رکھے گی اور عبادت گاہ کا وہی مذہب رہے گا جو 15 اگست 1947 کو تھا۔ 1990 کی دہائی کے اوائل سے، بی جے پی/آر ایس ایس نے بڑے پیمانے پر ہندو او رمسلمانوں کے مابین اختلافات کا استعمال کیا اور ساتھ ساتھ سیاسی مصلحت کےلئے اور بڑے طبقوں کو متحرک کرنے کےلئے ہندو قوم پرستی کا کارڈ استعمال کیا۔ 6ستمبر1992 کو بابری مسجد کی شہادت نے بھارت میں سیکولر سوچ کو مزید کمزور کیا۔ ایسے ہی گجرات فسادات (2002) کے دوران مسلمانوں کے قتل عام نے اس بات کو ثابت کیاکہ بھارت میں مسلمانوں کی عبادت گاہیں قطعاً محفوظ نہےں ۔یاد رہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے اس سارے عمل کو انتہائی منظم ڈھنگ سے انجام دینے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی ۔ اس ضمن میں جنونی ہندوو گروہوں کے طریقہ واردات سے آگاہی ضروری ہے جو کچھ یوں ہے کہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ نفسیاتی اذیت اور تذلیل کا نشانہ بنانے کے لیے ایک تاریخی یا نمایاں مسجد کو ہدف کے طور پر منتخب کیا جاتا ہے اورپھر ہندو انتہا پسند خود کو مورخ یا ماہر آثار قدیمہ یا مذہبی اسکالر کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے مذکورہ مسجد کی تاریخ کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں اور اسے صدیوں پہلے ہندو مندر کی تباہی سے جوڑتے ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں خاص طور پر سنگ پریوار (آر ایس ایس سے وابستہ) نشانہ بنائی گئی مسجد کے خلاف میڈیا مہم شروع کر دیتی ہیں۔ اس مقصد کےلئے ہندو قوم پرستی اور فرقہ پرستی کو ہندو سماج کے طبقات کو بھڑکانے اور اکسانے کےلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر مسجد کے بارے میں تنازعہ کو قانونی چارہ جوئی شروع کرکے اور آثار قدیمہ کے سروے کا مطالبہ کرکے قومی یا ریاستی سطح پر لایا جاتا ہے۔ ہندتوا دبا¶ کے تحت، عدالتیں ”عبادت کے مقامات ایکٹ – 1991” میں واضح قانونی پوزیشن کے باوجود ایسی درخواستوں کو مسترد کرنے سے گریز کرتی ہیں ۔ یاد رہے کہ RSS/BJP یا دیگر ہندو انتہا پسند تنظیمیں قومی اور ریاستی سطح پر انتخابی فوائد کےلئے مسجداورمندر کے تنازعوں کا فائدہ اٹھاتی ہیںاور زیادہ تر مسجداور مندر تنازعے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات، مسجد کو مسمار کر کے اس کی جگہ مندر بنا دیا جاتا ہے اور یوں مسلم کمیونٹی کو زندگی اور ایمان کے دائمی خوف میں رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ یہاں اس امر کا تکذکرہ انتہائی ضروری ہے کہ نفرت انگیز جرائم کسی فرد یا برادری کے خلاف نسل، ذات یا مذہب کی شناخت کی بنیاد پر تعصب کی وجہ سے کیے جاتے ہیں۔ اس میں کسی فرد یا کسی خاص سماجی گروہ کو ہراساں کرنا اور تشدد کرنا شامل ہیں جو سماجی ہم آہنگی کو متاثر کرتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم نہ صرف مسلمانوں کے خلاف تعصب کی وجہ سے ہوتے ہیں بلکہ اکثر اقلیتوں کے خلاف انتہاءہندو برادری میں پائی جانے والی نفرت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔اس تمام صورتحال کے پس منظر اور پیش منظر کا جائزہ لیں تو یہ امر بخوبی واضح ہو جا تا ہے کہ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا جا رہا ہے اوراقلیتوں کے خلاف نفرت کے ان جذبات کو ہندو قوم پرستی کے پرچار سے پروان چڑھایا جاتا ہے۔ آر ایس ایس کی جانب سے اس تعصب کو ہوا دی گئی ہے کہ ہندوستان بنیادی طور پر ایک ہندو ملک ہے اور اس پرحق صرف ہندو¶ں کا ہے۔ دیگر مذاہب جیسا کہ اسلام اور عیسائیت غیر ہندوستانی ہیں، اس لیے وہ ہندوستان کے حقدار نہیں ہیں۔ یہ امر قابل تشویش ہے کہ یہ تعصبات متاثرہ کمیونٹی کےخلاف بڑے پیمانے پر تشدد کی کارروائیوں کا باعث بن رہے ہےں۔ اسی طرح، نفرت انگیز تقاریر مواصلات کی ایک ایسی شکل ہیں جو خوف، نفرت اور ناخوشگوار ماحول پیدا کرتی ہیں۔ مبصرین کے مطابق متعلقہ قوانین کی موجودگی کے باوجود بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقریریں اور تحریریں عروج پر ہیں اور ساتھ ہی بی جے پی نے آہستہ آہستہ ان قوانین کو انتظامی اقدامات سے غیر موثر بنا دیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہندوتوا تنظیموں بالخصوص آر ایس ایس اور اس کے حواریوں کی پروپیگنڈہ مہمات کی وجہ سے بھارتی عدالتیں بھی ان کے زیر اثر آتی جا رہی ہیں۔یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ سوشل میڈیا پر بھارتی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں اضافے کی نشاندہی کرتی ہیں جو ہمیشہ نفرت انگیز جرائم کا باعث بنتی ہیں ۔یاد رہے کہ2021 میں بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے 294 واقعات ہوئے اور بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں مسلمانوں کےخلاف سب سے زیادہ نفرت انگیز جرائم کیے گئے ہیں۔یہاں یہ امر قابل توجہ کا حامل ہے کہ کرونا کی وبا کے دوران جس طور بھارت بھر میں تبلیغی جماعت کے خلاف زہر افشانی کی گئی اور اس ضمن میں طرح طرح کے افسانے تراشے گئے اس سے بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں کی مزید دل آزاری ہوئی اور یہ مکروہ سلسلہ اب بھی تھمنے کا نام نہےں لے رہا جس کے نتیجے میں بھارت کا پورا سماجی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پورا جنوبی ایشیاءبھارت کی انتہاءپسندانہ ذہنیت کی وجہ سے مزید عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے ۔

Exit mobile version