سبھی جانتے ہےں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو سائفر کیس میں 10سال کی نااہلی کی سزا ہوچکی ہے علاوہ ازیں موصوف اور ان کی اہلیہ کوتوشہ خانہ کیس میں 14,14 سال قید اور جرمانہ بھی ہوا ہے ۔ اس سلسلے میں قانونی ماہرین نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے ۔ان ماہرین میں سپریم کورٹ بار کے سابق صدر یاسین آزاد،ماہر قانون حافظ احسان ایڈووکیٹ،سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر، سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، راجہ خالد،یحییٰ فرید ،بیرسٹر وقاص تبریز،آئینی ماہر معیز جعفری جیسے معتبر نام شامل ہےں۔
قابل ذکر ہے کہ یاسین آزاد نے اس سلسلے میں اپنی رائے دیتے کہا کہ 1973 کے آئین کے مطابق جو بھی وزیر اعظم یا وزیر حلف اٹھاتا ہے وہ اس بات کو یقینی بنانے کا ذمہ دار ہوتا ہے کہ وہ ذاتی معاملات کو ریاستی معاملات پر فوقیت نہیں دیں گے مگرعمران خان نے سائفر لہرا کر عوام کے سامنے ہیرو بننے کی کوشش کی دوسری جانب ڈیفنس یعنی وکیل صفائی عدالت میں کیوں پیش نہیں ہوئے؟ علاوہ ازیں سابق وزیر اعظم اور شاہ محمود نے جج کے ساتھ جس طرح کا جارحانہ برتا¶ کیا وہ یقینا شرمناک عمل تھا۔
یاد رہے کہ اسی تناظر میں حافظ احسان کا کہنا تھاکہ جو اس وقت ٹرائل کورٹ کا فیصلہ ہے اس پر اپیل کی جاسکتی ہے، لیکن اہم یہ بات ہے کہ جو تنازع پاکستان میں 27 مارچ 2022 سے چل رہا تھا اور وہ جو ایک میٹنگ تھی جس میں ہمارے سیکریٹری خارجہ بھی تھے اور جو اسے ایک سازش کا نام دیا گیا یا رجیم چینج کا نام دیا گیا اور اس کے بعد جو تحریک عدم اعتماد آئی اور جو عوام میں ایک بیانیہ بنایا گیا عوام میں وہ ساری چیزیں ایسی تھی جس کی اجازت آئین وزیر اعظم کو نہیں دیتا کیونکہ وزیر اعظم ہونے کی حیثیت سے جو بھی چیز آپ کے علم میں آئے خاص کر کے قومی سالمیت کے حوالے سے تو دنیا میں کہیں بھی آپ اس کو منظر عام پر نہیں لاسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں 3 شواہد بہت خاص تھے ایک اعظم خان کا بیان، ایک آڈیو جس میں کہا گیا کہ ہم اسے سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اسد مجید اور سہیل محمود کے بیانات، اس معاملے سے پاکستان امریکا کے تعلقات میں کافی تنا¶ آیا ہے۔
اسی پس منظر میں عرفان قادر کی رائے تھی کہ و¿تفصیلی فیصلہ آنے تک کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا لیکن اس فیصلے کے سیاسی اثرات ضرور مرتب ہو نگے اورپی ٹی آئی مخالف اس فیصلے کا جشن منائیں گے لیکن پی ٹی آئی کے حامی تنقید کریں گے اور الیکشن کے لیے عوام سے ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس معاملے پرممتازقانون دان راجہ خالد کا کہناتھا کہ اس کیس میں بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ کے پاس اپیل کے لیے اگلا پلیٹ فارم ہائی کورٹ موجود ہے، اس کے بعد سپریم کورٹ میں بھی اپیل کی جاسکتی ہے اور یہ کیس آسان تھا، جج صاحب کو فیصلہ دیتے ہوئے زیادہ مشکل نہیں ہوئی ہوگی کیونکہ سائفر کا خفیہ دستاویز ہونا ایک تسلیم شدہ حقیقت تھی، اسے ایک پبلک میٹنگ میں دکھایا گیا، لہرایا گیا اور اس کے مواد کو شیئر کیا جانا بھی تسلیم شدہ ہے، سابق وزیر اعظم نے اسی اس وقت ایک عوامی اجتماع میں سائفر لہرایا تھا پھر ان کے خاص گواہ اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا 164 سی آر پی سی کا بیان قلمبند ہوا اور اس بیان کی قانون کی نظر میں بہت اہمیت ہوتی ہے، پھر جو سابق سفیر اسد مجید نے بتایا کہ امریکا کی طرف سے کوئی بھی دھمکی نہیں دی گئی ہے، اس میں کوئی اس طرح کی بات نہیں تھی۔
ایڈووکیٹ راجا خالد نے واضح کیا کہ سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود کا بیان بھی خاصا اہم تھا، انہوں نے بھی بتایا کہ سائفر عمران خان کے پاس ہے اور واپس ہمیں نہیں ملا اور اس کی تائید اعظم خان نے بھی کی اور خان صاحب کا خود بھی ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا تھا، جس میں انہوں نے مانا تھا کہ سائفر گم ہوگیا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی اس معاملے کو ایک ماہ میں نمٹانے کی واضح ہدایات کے باوجود اس کا جو ٹرائل ہوا اسے طول دیا گیا۔
اسی سلسلے میں قانونی اور آئینی ماہر یحییٰ فرید کا کہنا تھا کہ سائفرمعاملے میں اعظم خان کا بیان سب سے اہم تھا۔ سیکشن 161 اور 164 کے تحت ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور اس نے عمران خان اور شاہ محمود کو جواب دیا۔یاد رہے کہ اسی حوالے سے بیرسٹر وقاص تبریز کا کہنا تھا کہ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ عمران خان کو اس کیس میں سزا سنائی جائے گی۔ خصوصی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اس تمام معاملے کوسیاسی رخ دینے کی کوشش کی ہے حالانکہ اس ضمن میںاگر دیکھا جائے تو ضرورت اس امر کی ہے اور تھی کہ اس تمام صورتحال کو قانونی اور آئینی انداز سے دیکھا جائے تو یہ خود عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے لئے بھی مفید ہوگا ورگرنہ سیاسی رنگ دینے سے نتائج خود عمران خان کےخلاف جا سکتے ہےں ۔