Site icon Daily Pakistan

عوام اور خواص کی تفریق کو ختم کرنا ہوگا!

ایک اور این آر او ہونے کی کوششیں جاری ہیں، لگتا ایسا ہے کہ اس مرتبہ مجوزہ این آر او کے شرائط کچھ سخت ہیں اس وجہ سے تاخیر ہو رہی بھر حال یہ طے ہے کہ سیاست کے کچھ پرانے کھلاڑی سیاست کے میدان سے باہر نظر آئیں گے۔ یہاں کچھ بھی ممکن ہے، میاں نواز شریف جب جیل میں تھے تو در پردہ اور پس پردہ سکرین پہ بہت کچھ چلتا تھا۔ حکمران اپنا الو ایک بار پھر سیدھا کرنے کے چکر میں ہیں اور لگتا یسا ہے کہ سب ملے ہوئے ہیں ،عام تاثر یہی ہے۔ میاں نواز شریف جب جیل میں تھے اس دوران ہی ملک سے باہر نکلنے کے چکر میں ہے اور اس میں کامیاب ہوگئے اور ان کی ضمانت بھی ہوگئی ہے اور وہ پچاس روپئے کی ضمانت پہ نہ صرف جیل سے نکلے بلکہ ملک سے بھی نکل گئے۔پی پی والے بھی این آر او کیلئے سر دھڑ کی بازی لگاتے رہے ہیں۔یہ بھی ایک تماشا ہے کہ یہ عناصر جب جیل میں ہوتے ہیں تو یہ شدید ترین بیمار ہو جاتے ہیں اور جیسے ہی جیل سے نکل آتے ہیں تو تر و تازہ ہو جاتے ہیں۔یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ جس دن میں نواز شریف کی طبی ضمات کی درخواست منظور ہوئی اسی دن میں شہباز شریف کا نام بھی ای سی ایل سے نکال دیا گیا۔ حکومت کے مالیاتی فنڈ سے بات چیت جاری ہے اور کیا ہمارے حکمران آئی ایم ایف کو شرائط میں نرمی پر آمادہ کر لیں گے ؟ بظاہر یہ ناممکن نظر آتا ہے اور حکمران قوم کو نوید سناتے رہتے ہیں کہ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں مرحلہ وار اضافہ کرنا پڑےگا۔ بس حکمرانوں کی پالاننگ بس یہ ہے کہ بس گیس، بجلی، پٹرول کی قیمتیں بڑھاتے جاﺅ اور عوام پر ٹیکس لگاتے جاﺅ اور عوام کے ٹیکس کا پیسہ یہ حکمران کھاتے چلے جاتے ہیں، کروڑوں کی تو گاڑی کی ٹائروں کی تبدیلی پہ خرچ کر ڈالتے ہیں ۔سودی قرضوں نے ملک کی معیشت کو انتہائی کمزور کر دیا ہے پرویز مشرف کے دور میں آئی ایم ایف کے قرضوں سے عوام کو بچانے کے اقدامات تھے اور کافی حد تک ملک کو آئی ایم کے نئے قرضوں سے بچایا جارہا تھا اور تیزی کے ساتھ قرضے واپس ہورہے تھے مگر اسکے بعد کی حکومت کے آئی ایم کے قرضوں پر تکیہ کیا گیا سخت شرائط پر نئے قرضے حاصل کئے گئے جس میں سابقہ پیپلز پارٹی کی حکومت ۔ ن لیگ کی حکومت اور پی ٹی آئی کی حکومتیں شامل ہیں اب لگتا ہے کہ معاشی حوالے سے حالات سخت ہونگے موجودہ حکومت کیلئے چیلنج ہے کہ آئی ایم ایف کو قسطیں کیسے ادا کی جائے یہ ایک مسئلہ ہے جوں جوں وقت گزرے گا حالات گھمبیر ہونگے۔ ادھر امریکی صدر جو بائیڈن صدارتی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں اور ٹرمپ کے دوبارہ آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ عام آدمی دست بہ دعا ہے کہ یا اللہ خیر۔پہلے جب خوشحالی کا دور تھا تو ہمارے شعرا لب کی نازکیوںکا رونا روتے تھے بڑی باریک بینی سے ہجر ووصال کے قصے بیان کیئے جاتے اور غزالی آنکھوں تذکرے ہوتے اور خد وخال کا ذکر ہوتااور عنبری زلفوں کو یاد کیا جاتا کیونکہ ملک میں خوشحالی تھی اور لوگ پیٹ کے غم سے آزاد تھے تو اس قسم کے شعر گنگناتے تھے
پھول کی ہیں پتیاں یہ لب ترے
اور تری آنکھیں شرابی نیم باز
اور کہتے تھے
یہ تیری جھیل سی آنکھوں میں رتجگوں کے بھور
یہ تیرے پھول سے چہرے پہ چاندنی کی پھوار
یہ تیرے لب یہ دیارِ یمن کے س±رخ عقیق
یہ آئینے سی جبیں ، سجدہ گاہِ لیل و نہار
مگر اب ایسا نہیں ہے ، سب قصہ پارینہ ہے ۔اب صرف پیٹ کا رونا ہے ہر طرف سے یہ آواز آرہی ہے کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے بحرانی کیفیت نے ہر شخص کو مایوسی میں مبتلا کیا ہے خوشحالی اب قصہ پارینہ بن گئی ہے ایک عام آدمی بے یقینی کا شکار ہے اور تشویش میں مبتلا ہے اور ملک کی ابتری کا رونا رو رہا ہے ایک بحران ختم ہوتا ہے تو دوسرا جنم لیتا ہے ملک پے درپے فسادات کے زد میں ہے اور اس کیفیت میں دوست دشمن کی تمیز ختم ہوگئی ہے اور یہ سمجھنا مشکل ہے کہ دوست کون ہے اور دشمن کون ہے؟ اس حالت میں غریبوں کا غارت ہوگیا ہے سرمایہ داروں اور اداروں کی جنگ میں عوام کا وہ حشر ہو رہا ہے جو ہاتھیوں کی جنگ میں چیونٹیوں کا ہوتا ہے آٹا، چاول، دال، گوشت، سبزی اور گھی جو عام روز مرہ کی چیزیں ہیںان کی قیمتوں میں بلاجواز اضافے نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے ۔ ملک میںجس معاشی بحران نے جنم لیا اس نے قوم کو ایک اور پوری قوم کو متاثر کیا اور ہر فرد بے یقینی اور مایوسی کا شکار ہوگیا مراعات یافتہ طبقہ تو اپنا الو سیدھا کرتا ہے مگر عام آدمی بدترین بحرانوں سے دوچار ہے اور پریشان حال ہے اور لوگ نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں اور ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں اور ملک میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میںاضافہ ہو رہا ہے ۔ ملک کو سیاسی ، معاشی، معاشرتی اور سماجی طور پر انہوںنے اپنی بے تدبیروں، غلطیوں اور خطاﺅں کی وجہ سے ناکارہ کردیا ہے اور ان کے اقدامات سے لوٹ کھسوٹ ہمارہ طرہ امتیاز بن گیا ہے مگر ایک بار پھر عوام کے سامنے میدان میں ہیں اور عوام ہیں کہ ان ہی سے بھلائی کی امید پر دھوکہ کھانے کیلئے تیار ہیں
میرکیا سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
المیہ ہمارا یہ ہے کہ میر جعفر کا پوتاہمارا پہلا صدر بنا تھا اور کچھ عرصہ یہ گورنر جنرل کے منصب پر بھی فائز رہاانہوںنے جو بویا ہے اس کی تیار فصل آج کھایا جاہا ہے اور اس کے نتیجے میںحرام خور طبقہ توندیں نکال رہا ہے اور عام آدمی غربت کی لکیر سے نیچے ذندگی گزار رہا ہے اور پھر بھی عوام کو سبز باغ دکھائے جارہے رہے ہیں عوام کو الیکشن کے دنوں میں بےوقوف بنایا جاتا ہے اور ملک کا باشعور طبقہ سوچتے سوچتے کڑھتا ہے۔ یہ بحران اچانک نہیں پیدا کئے جاتے بلکہ اس کیلئے باقاعدہ پلاننگ کی جاتی ہے اور کوئی بحران آخری بحران نہیں ہ ہوتا ہے آگے دیکھے اور بحرانوں کا تماشا کریں کیونکہ نظام بد موجود ہے اس کے آنے والے بد اثرات مزید اذیت ناک ہونگے اور ہمارے شاعر حضرات لب ورخسارکو بھول کر صرف نوحے لکھیںگے لیکن وقت کا تازیانہ بڑا ظالم ہے اور ظلم نے ایک دن ختم ہونا ہوتا ہے ، کبھی تو وہ صبح طلوع ہوگی مگر اس کیلئے عوام کو بس عوام کو قوم بن کے دکھانا ہوگا تاکہ عوام اور خواص کی تفریق ختم ہو!۔

Exit mobile version